اصل حقائق کیوں پوشیدہ ہیں؟

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

تاریخی حوالے سے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کل کی بات ہے۔ وہ اکثر کردار زندہ ہیں کہ جنھوں نے اس تمام عمل میں حصہ لیا تھا، لیکن آپ تجزیہ کرلیں کہ پھانسی کے وقت وہاں موجود اشخاص کے بیانات میں شدید تضاد ہے۔ جیل کے اُس وقت کے ڈپٹی سپرنٹنڈٹ مجید قریشی کا بیانیہ اور ہے، جب کہ بھٹو صاحب کی سیکورٹی پر متعین کرنل رفیع کا بیانیہ اور ہے۔ اس طرح اس پھانسی کو لمحہ بہ لمحہ کنٹرول کرنے والے اُس وقت کے پنڈی کے سی ایم ایل اے بریگیڈیر راحت لطیف کا بیان اور ہے…… یعنی ان کے بیانات میں بے شمار تضادات ہیں، تو پھر ہم کس طرح قدیم تاریخ کو معیار مان سکتے ہیں؟
بہ ہرحال پاکستان کی تاریخ تو اغلاط سے بھری پڑی ہے۔ آئیں، ایسے ہی چند واقعات کا جائزہ لیتے ہیں:
بانیِ پاکستان کی جائے پیدایش دادو کے قریب ہوئی اور یہی کچھ بتایا جاتا رہا ہے، لیکن اس کے بعد فوراً 1956ء میں قائداعظم کی جنم بھومی کراچی بنا دی گئی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟
اس کے بعد ایک نہایت ہی اہم معاملہ اسلام آباد کی تعمیر ہے۔ یہ بات تقریباً اوپن سیکریٹ ہے کہ یہ فیصلہ قائداعظم کا تھا، لیکن قائد اس کو مناسب وقت پر ایک سیاسی رضا مندی اور کامل اتحاد کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہچانا چاہتے تھے۔ بے شک اس پر کاغذی کارروائی پاکستان بننے کے فوراً بعد شروع ہوچکی تھی، لیکن آج ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلام آباد کی تعمیر سابق آمر جنرل ایوب خان کا منصوبہ تھا اور انھوں ہی نے اسلام آباد کی تشکیل کی۔
پھر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ گوادر کو پاکستان میں شامل کرنا ہے۔ گوادر کی پاکستان میں شمولیت میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کا کردار صفر بھی نہ تھا، لیکن آج پاکستان کی ایک بڑی آبادی اس کو 100 فی صد ایوب خان کا کارنامہ مانتی بھی ہے اور اس پر یقین بھی کرتی ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ گوادر جو کہ ریاست عمان کا حصہ تھا، پر پاکستان نے عمان سے مذاکرات خان لیاقت علی خان کے دور سے شروع کر دیے تھے اور پھر آخری بات چیت چوہدری محمد علی کے دور میں مکمل ہوئی۔ اس کی روشنی میں ایک معاہدہ طے پا گیا کہ جس کے مطابق پاکستان نے ڈالروں میں ایک متعین رقم ریاست عمان کو دے کر گوادر کو خرید لیا اور اس کو بلوچستان میں شامل کر دیا۔
مستند ذرائع سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ گوادر کو خریدنے کے لیے ایک خطیر رقم اسماعیلی برادری کے اُس وقت کے امام پرنس کریم آغا خان نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے مہیا کی تھی، لیکن چوں کہ اس طرح کے کام ظاہر ہے، ایک دن میں تو نہیں ہوتے۔ سو یہاں پر باقاعدہ پاکستان حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے کچھ عرصہ تو مطلوب تھا۔ سو ایوب خان کے دور میں یہاں پکی سڑک اور فوجی چھاونی کا قیام عمل میں آیا، تو تاثر یہ بن گیا کہ گوادر ایوب خان نے پاکستان میں شامل کیا۔
یہاں یہ دل چسپ حقیقت بھی ہے کہ ایوب خان نے جب محترمہ فاطمہ جناح کے مخالف انتخابات لڑا، تو انھوں نے اپنی کسی تقریر یا پریس کانفرنس میں اس حوالے سے کوئی دعوا نہیں کیا، نہ ان کے کسی قریبی ساتھی نے۔ ایوب خان اپنی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا، مختلف حوالوں سے (صیح یا غلط) اپنی خدمات کو بیان کرتا رہا، لیکن گوادر بارے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ تو پھر آج ہم اپنی تاریخ کو درست کیوں نہیں کرتے اور اصل حقیقت اپنی نئی نسل تک کیوں نہیں پہنچاتے؟
یہاں یہ بات بھی اہم ہے خاص کر گوادر کے حوالے سے کہ یہ کوئی سیاسی فائدے کی بات نہیں اور نہ اب ایوب خان کی موجودہ سیاست میں خواہ حمایت میں ہو یا مخالفت میں، کوئی گنجایش ہی ہے۔ تو پھر ہم تاریخ کو درست کیوں نہیں کرسکتے؟
اسی طرح ایک اور واقعہ اگرتلہ کا ہوا۔ ہمیں بتایا گیا کہ بھارت کے ایک شہر اگرتلہ میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک سازش ہوئی اور اُس وقت کے ایک اہم سیاسی رہ نما شیخ مجیب الرحمان کو اگرتلہ سازش کا سرغنہ قرار دے کر گرفتار کیا گیا اور اُن پر غداری کا مقدمہ بنایا گیا، لیکن پھر ایک دن اچانک شیخ مجیب الرحمان کو جیل سے نکال دیا گیا، بل کہ اس غدار قرار دیے گئے شخص کو مکمل آزادی سے 1970ء کے انتخابات لڑنے کی اجازت بھی دے دی گئی، مگر قوم اب تک اس معاملے پر کنفیوز ہے اور مختلف رائے رکھتی ہے۔
اسی طرح جو سانحہ سنہ 1971ء کو رونما ہوا۔ اُس بارے بھی عوام کو کچھ خاص معلومات نہیں دی گئی۔ جب بھی ضرورت سمجھی جاتی ہے، تو اُس دور کے واحد عوامی رہ نما ذوالفقار علی بھٹو کہ جن کی جماعت اور لیگیسی اب بھی موجود ہے، کو معتوب ٹھہرا دیا جاتا ہے اور سارا الزام اُن کے سر دھر دیا جاتا ہے…… مگر اُس دور کے طاقت ور حلقوں بارے مکمل زبان بندی ہے۔ حتی کہ اس دور میں جو ’’حمود الرحمن کمیشن‘‘ بنایا گیا تھا، اس کی رپورٹ بھی عوام سے پوشیدہ رکھی گئی…… یعنی آج صرف 54، 55 سال بعد ہماری قوم اس سانحہ پر تقسیم ہے اور ایک مستند و حقیقی رائے قائم کرنے سے دور ہے۔
اس کے بعد سنہ 77ء کا مارشل آیا، آج تک عوام کو مکمل حقائق معلوم نہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ذمے دار اُس وقت کی حکومت تھی۔ کچھ کے نزدیک اُس وقت کی حزبِ اختلاف اور کچھ کے نزدیک سب کچھ طے ہوچکا تھا، لیکن ضیاء الحق کی ہوسِ اقتدار نے یہ کام کیا۔
اُس کے بعد حیدر آباد ٹربیونل کہ ولی خان غدار ہے۔ اسلحہ آیا دھماکے کروائے گئے۔ پھر وہی ولی خان محب وطن بن کر رہ نما بن جاتا ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مقبول خاتون وزیرِ اعظم کے دور میں ایک خبر نکلی کہ بی بی نے سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دیں، لیکن کوئی مستند ثبوت نہیں۔
الغرض، پاکستان کے قیام سے اب تک عجیب کھیل جاری ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو غدار تھیں، سیکورٹی رسک تھیں۔ پھر اُسی خاتون کو سرکاری سی ون تھرٹی میں لا کر سیلوٹ کیا جاتا ہے۔
پھر کہا جاتا ہے الطاف حسین غدارِ ملک و قوم ہے۔ جناح پور بنانا چاہتا ہے۔ پھر اُسی الطاف کے حوالے سارا کراچی کر دیا جاتا ہے اور ’’الطاف بھائی‘‘ کی مرضی کے خلاف کراچی میں ایک پتا تک نہیں ہلتا۔
پھر کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف ہائی جیکر ہے۔ مودی کا ایجنٹ ہے۔ بھارتی سیکرٹ سروس ’’را‘‘ (RAW) کے ایجنٹ اس کی فیکٹریوں میں ملازم ہیں۔ پھر اُسی نواز شریف کو سیلوٹ مار کر وزیرِ اعظم ہاؤس میں براجمان کر دیا جاتا ہے۔
پھر اسی پیٹرن میں ہم نے دیکھا کہ آصف زرداری پر ’’میمو گیٹ سکینڈل‘‘ کا الزام لگا دیا گیا اور پھر اُسی آصف زرداری کو ملک کا صدر بنا دیا گیا۔ مزید ہم نے یہی کچھ سندھ کے قوم پرستوں جیسے غوث بخش پلیجو، جی ایم سید، بلوچستان سے مری قبائل، بگٹی قبائل، عطاء ﷲ مینگل سمیت لاتعداد لوگوں کے ساتھ یہی کیا گیا۔
اسی طرح جسٹس افتخار چوہدری کی بہ حالی کی جو مشہورِ زمانہ تحریک تھی، وہ بھی واضح نہیں۔ ایک طبقہ اُس کو درست جب کہ دوسرا طبقہ اُس کو سازش مانتا ہے۔
دور کیوں جایا جائے، ابھی حال ہی میں شاید یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم درجنوں ایسے واقعات لکھ سکتے ہیں کہ جہاں ریاست کا بیانیہ 180 ڈگری کے زاویے سے تبدیل ہوکر دوسری انتہا تک جاپہنچا۔
چلو، یہ بات تو تسلیم کی جا سکتی ہے کہ وقتی اور حال کی سیاسی صورتِ حال میں ہم کچھ شخصیات یا واقعات کو اپنے نظریہ سے آگے پیچھے کرلیتے ہیں، لیکن اس بات کا کیا جواز ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو بھی نامکمل اور کنفیوز رکھتے ہیں؟ کیا کوئی قوم تاریخ میں ملاوٹ کر کے بھی آگے بڑھ سکتی ہے؟ سو ہم اپنی ریاست سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کم از کم 1947ء سے لے کر سنہ 2008ء تک کی تاریخ کو ایک کمیشن بنا کر درست کر دیا جائے۔ کیوں کہ مذکورہ عرصے کے تقریباً تمام ہی انتظامی، فوجی اور سیاسی شخصیات خدا کے پاس جاچکی ہیں اور ریاست کو بلا کسی تعصب کے سب سچ عوام کے سامنے رکھ دینا چاہیے۔
پھر اسی تاریخ کو سلیبس کی کتب میں غیر جانب دارانہ طور پر لکھ دیا جائے۔باقی دنیا میں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے، خاص کر دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں۔ مثال کے طور پر ابھی امریکہ نے اپنے کلاسیفائڈ کاغذات کو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے کہ جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ افغان جنگ کے حالات انھوں نے بنائے تھے۔ ایک مخصوص نظریہ کے مسلم فرقہ کو انھوں نے لانچ کیا تھا، جب کہ ہم کو یہ بتایا جاتا رہا کہ افغان میں ’’جہاد‘‘ ہو رہا تھا اور روس کو گرم پانیوں کی جانب پیش قدمی سے روکنا مقصدِ عظیم تھا۔
اس کے علاوہ امریکہ ہمیشہ 40 سال بعد اپنے انتہائی اہم کاغذات کو بھی عام عوام کے سامنے رکھا کرتا ہے۔
اسی طرح مغرب و مشرقِ بعید کے اکثر ممالک یہی رویہ رکھتے ہیں، لیکن افسوس ہم وہ واحد بدقسمت قوم ہیں کہ جن کا حال تو مشکل ہے ہی، مستقبل مایوس کن ہے، لیکن ماضی بھی انجانا ہے۔ اصل حقائق پوشیدہ ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں اور نہ مستقبل کی بہتر پیش بندی ہی کرسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے