نئی عالمی صف بندیاں اور پاکستان

Blogger Syed Shahid Abbas Kazmi

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ 12 فروری 2025ء کو انکشاف کیا کہ اُنھوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے فون پر طویل بات چیت کی ہے، جس کے نتیجے میں روس نے یوکرین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ کیوں کہ اب تک کی صورتِ حال میں روس اپنی شرائط ہی پر امن قائم کرنے کا خواہاں رہا ہے، جب کہ یوکرین مغربی حمایت پر بھروسا کرتے ہوئے جنگ کو طول دینے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان بہ راہِ راست مذاکرات اس تنازع کے مستقبل کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ فون کال نہ صرف یوکرین کے لیے ایک دھچکا ہے، بل کہ اس سے نیٹو کے کردار پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر شک کا اظہار کیا ہے، جو اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ امریکہ نیٹو کے ذریعے یوکرین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بیان امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے درمیان اختلافات کو بڑھا سکتا ہے۔ کیوں کہ نیٹو ممالک یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے نیٹو پر امریکہ کے بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے سابقہ دورِ صدارت میں بھی نیٹو کے اخراجات میں کمی کی کوشش کی گئی تھی اور اب جب کہ وہ دوبارہ صدر بن گئے ہیں، تو ان کی پالیسی ایک بار پھر اُسی سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا بہ راہِ راست اثر یوکرین پر پڑے گا۔ کیوں کہ اگر امریکہ نے نیٹو کے ذریعے مکمل تحفظ کی یقین دہانی سے انکار کر دیا، تو دیگر یورپی ممالک کے لیے یوکرین کی مدد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ روسی صدر پوٹن کی مذاکرات پر آمادگی بہ ظاہر ایک مثبت قدم معلوم ہوتی ہے، مگر اس کے پیچھے روس کے مخصوص اہداف بھی ہوسکتے ہیں۔ روس شاید اس وقت جنگ بندی پر اس لیے آمادہ ہو رہا ہے، کیوں کہ اسے احساس ہوچکا ہے کہ مغربی ممالک کی مسلسل مدد یوکرین کو غیر متوقع طور پر زیادہ دیر تک لڑنے کی صلاحیت دے رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پوٹن واقعی امن چاہتے ہیں، یا یہ محض ایک سفارتی چال ہے، تاکہ وقتی طور پر جنگ بندی ہو، اور روس خود کو دوبارہ منظم کرسکے؟
اسی دوران میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کا امریکہ کا دورہ بھی عالمی سیاست میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے گرم جوش رہے ہیں، اور اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے۔ امریکہ، بھارت کو چین کے خلاف ایک اہم اتحادی تصور کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں بھارت کو کئی اقتصادی اور دفاعی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے خاصی پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کا بہ راہِ راست مطلب یہ ہے کہ واشنگٹن کے لیے پاکستان کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت نے خود کو مغربی دنیا کے ایک بڑے اقتصادی اور اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر منوایا ہے، جب کہ پاکستان اپنی سفارت کاری میں وہ کام یابی حاصل نہیں کرسکا، جو اسے عالمی سیاست میں ایک نمایاں مقام دے سکے۔
اگر ہم عالمی سطح پر رونما ہونے والے ان واقعات کے تناظر میں پاکستان کے سفارتی مقام کا جائزہ لیں، تو صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ اب تک کسی بھی پاکستانی اعلا سطحی رہ نما کا امریکی قیادت سے کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔ یہ ایک تشویش ناک امر ہے۔ کیوں کہ جب دنیا کے بڑے ممالک جیسے روس، یوکرین، چین اور بھارت امریکی پالیسی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، تو پاکستان کی عدم موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان نظر آتی ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ مسئلہ پاکستان کی بیوروکریسی اور سفارتی پالیسی کی کم زوری ہے، یا امریکہ کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی کا حصہ؟ اگر ہم سفارتی ناکامی کی بات کریں، تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایک متحرک اور جدید حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سفارتی تعلقات محض رسمی بیانات سے نہیں، بل کہ مسلسل روابط اور موثر پالیسی سے مضبوط ہوتے ہیں۔
افغانستان کا معاملہ امریکی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے، لیکن حالیہ دنوں میں اس حوالے سے بھی پاکستان کے کردار پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔ امریکہ کے لیے افغانستان کی صورتِ حال اب اُس طرح اہمیت نہیں رکھتی، جیسا کہ ماضی میں تھی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ بہ راہِ راست رابطوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ امریکہ، جو ہمیشہ جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی رہا ہے، اب خطے میں بھارت کو ترجیح دے رہا ہے اور پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرنے کے لیے زیادہ دل چسپی نہیں دکھا رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں فوری اور بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی، تاکہ وہ اپنی سفارتی حیثیت کو مستحکم کرسکے۔
موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی خارجہ پالیسی میں کچھ نِکات پر محنت کرے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ یا وزیرِ اعظم کو بہ راہ راست امریکی قیادت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے متحرک ہونا پڑے گا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ روس، یوکرین، چین اور بھارت کے ساتھ سفارتی طور پر متحرک ہیں، تو پاکستان کے لیے بھی یہ لازمی ہے کہ وہ واشنگٹن سے اپنے تعلقات کو ازسرِ نو مستحکم کرے۔
پاکستان کو صرف اپنی داخلی سیاست تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بل کہ عالمی امور میں موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سفارتی وفود کو زیادہ متحرک اور موثر بنایا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کا نقطۂ نظر عالمی سطح پر سنا جاسکے۔
اگر امریکہ بھارت کو ایک بڑے اقتصادی پارٹنر کے طور پر دیکھ رہا ہے، تو پاکستان کو بھی اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی اہمیت منوانی ہوگی۔ اگر امریکہ اس معاملے پر پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے، تو اسلام آباد کو اپنی سفارتی حکمت عملی میں ایسی تبدیلیاں کرنی ہوں گی، جو اسے خطے میں ناگزیر بناسکیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی صدر پوٹن کے ساتھ گفت گو، یوکرین جنگ کے مستقبل، نیٹو کی پالیسی اور امریکہ بھارت تعلقات سب کچھ عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر ازسرِ نو غور کرے اور عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو یقینی بنائے۔ بہ صورتِ دیگر خدشہ ہے کہ امریکہ کی نئی پالیسیوں میں پاکستان کے لیے جگہ مزید کم ہوجائے گی، جو مستقبل میں پاکستان کی معیشت، سفارت کاری اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے