سیدو شریف: میرے دنوں کی کچھ دل چسپ شخصیات

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ہم سیدو شریف میں تقریباً نصف صدی تک مقیم رہے۔ ریاست کے دارالحکومت میں اعلا عہدوں پر فائز افراد کے علاوہ، ریاست کے ہر کونے سے لوگ مواقع کی تلاش میں یہاں آئے اور سیدو کے امن و سکون کے سحر میں جکڑ کر یہیں پر مستقل سکونت اختیار کر نے مجبور ہوئے۔
اُس وقت شہر کی آبادی کا 75 فی صد سے زیادہ حصہ غیر مقامی لوگوں پر مشتمل تھا، مگر اَب یہ ان کی تیسری اور چوتھی نسل ہے، جن میں سے اکثر شاید بھول چکے ہوں گے کہ ان کے آبا و اجداد کب اور کہاں سے آئے تھے؟
اصل سیدو والے یا تو پاپینی میاں ہیں، یا جولاہے۔ سیدو شریف ’’تیلیان‘‘ کے نام سے مشہور ایک بااثر خاندان کا بھی گڑھ ہے۔ یہ امیر تاجر یا انتہائی تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ آپ انھیں کسی بھی محکمہ میں اعلا عہدوں پر دیکھ سکتے ہیں۔
پاپینی میانگان (میاں کا جمع) کے پاس اپنے آبا و اجداد سے وراثت میں ملی زمینیں ہیں، لیکن باقی سیدو اور ملحقہ زمینیں، جو وٹرنری ہسپتال تک ہیں، میانگل خاندان کی ملکیت تھیں۔
اب میں آپ کی دل چسپی کے لیے کچھ معروف شخصیات متعارف کرانا چاہتا ہوں۔
٭ شاہ زر:۔ سیدو شریف میں شاہ زر کے نام سے دو اشخاص تھے۔ ایک شاہ زر استاد تھے، جو بڑی بیگم کے گھریلو ڈرائیور تھے۔ وہ ایک بہت ہی دھیمے، شریف اور نرم مزاج انسان تھے۔
لیکن میری کہانی کا شاہ زر ایک محنتی آدمی تھا، جو اپنی روزی کمانے کے لیے ہر قسم کا کام کرتا تھا۔ سردیوں میں، وہ ایک پاپ کارن اسٹال لگاتا۔ وہ کنستر سے بنے بکسے میں تیار شدہ پاپ کارن رکھتا۔ بچے اپنے گھروں سے مکئی کے دانے لاتے اور وہ ’’مزد‘‘ کے طور پر مٹھی بھر دانے وصول کرتا اور باقی دانے ان کے لیے بھون دیتا۔ اس طرح وہ چند ہفتوں کے لیے اپنے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیتا۔
لیکن اُس کا اصل کمال ’’دف‘‘ بجانا تھا، جسے پشتو میں ’’تمبل‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا انگریزی میں کوئی متبادل میرے پاس نہیں۔ وہ موسیقی کے اس آلے کا ماہر تھا۔ جب وہ ’’دف‘‘ بجاتا تھا اور بختیار، (ایک دوسرا مقبول فن کار) بانسری بجاتا تھا، تو لوگ ان کی دل کش دھنوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ بختیار اور شاہ زر ہمارے زمانے کی بہترین مقامی موسیقی کی جوڑی تھے۔
بختیار شاہی بینڈ کے بینڈ میجر شافدار کا بیٹا تھا۔ اگرچہ اس کا نام بختیار تھا، لیکن لوگ اسے ’’شافدار‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ بختیار شاید اس کا تیسرا بیٹا تھا۔ پیشہ ور بینڈ ماسٹر کے بیٹے ہونے کے ناتے، وہ قدرتی طور پر بانسری بجانے کی طرف مائل تھا۔ وہ اپنے فن میں ماہر تھا اور اکثر مقامی موسیقی میں دل چسپی رکھنے والے لوگ اسے موسیقی کے محافل میں بلاتے۔ شاہ زر بھی اس کے ساتھ ہوتا تھا۔
زندگی گزارنے کے لیے وہ سیدو بازار میں جوتوں کی مرمت کرتا یا پالش کرتا۔ اسے کسی دکان کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بس وہ میر حاتم باربر کی دکان کے سامنے بیٹھ جاتا اور جوتے کی مرمت کا اسٹال لگاتا۔ وہ بہت باتونی تھا اور اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کو اپنی باتوں سے محظوظ کرتا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے