کبھی خواب نہ دیکھنا (چالیس ویں قسط)

Blogger Fazal Raziq Shahaab

سابق ریاستِ سوات کے حکم ران نے سواڑئی میں کالج کے لیے ایک اراضی حاصل کی تھی۔ اسی اراضی پر سواڑئی کالج، ہاسٹل اور ڈگر کالج کے عملے کے لیے دس عدد رہایشی بنگلے تقریباً 1000 کنال اراضی پر بنائے گئے تھے۔ کالج کی زمین کی قیمت 86000 روپے اہلِ بونیر نے ’’دوتر‘‘ کے حساب سے چندہ کرکے ادا کی تھی، لیکن بیش تر زمین ویسے ہی پڑی تھی۔ والی صاحب نے یہ زمین جان بوجھ کر ادارے میں مستقبل میں ہونے والی پیش رفت کو مدِنظر رکھتے ہوئے خریدی تھی۔
رہایشی بلاک کے پیچھے زمین کا 500×300 فٹ کا ایک بڑا ٹکڑا، زراعت کے لیے ایک مثالی پلاٹ تھا۔ ایک شام گھر کے لان میں بیٹھے ہوئے پروفیسر قاضی عبدالواسع نے اس زمین کو اپنی مدد آپ کے تحت کاشت کرنے کی تجویز دی۔ عملے کے تمام ارکان نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اگلے دن کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بیلوں کا انتظام کیا گیا، کیوں کہ اُن دنوں ٹریکٹر ملنا مشکل تھا۔ عملے نے زمین کو آپس میں تقسیم کرلیا۔ جوار کی پہلی فصل کی پیداوار حوصلہ افزا تھی۔ اس لیے انھوں نے مکئی کے بعد اگلے سیزن میں گندم کی بوائی کی۔ یہ بھی بہت زیادہ نتیجہ خیز تھا۔ ایک دل چسپ انداز میں پروفیسر اب کاشت کار بن گئے تھے۔ یوسف صاحب نے بہ طور پرنسپل چارج سنبھالتے ہی کالج کی زمین کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کا حکم دیا۔ وہ ایک ریاضی دان تھا اور اس مسئلے کو اس نقطۂ نظر سے دیکھتا تھا۔ آخرِکار کافی غور و خوض کے بعد کاشت کرنے والے اساتذہ کالج کو سالانہ بنیاد پر ایک خاص رقم ادا کرنے پر راضی ہوگئے۔
جیسا کہ پہلے ہی وضاحت کی ہے، لوگوں نے غیر قانونی کنکشن حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، جس کی حکومت کو کوئی ادائی نہیں کی جاتی تھی۔ وہ ایک ہُک کو مین لائن سے جوڑتے تھے۔ اسی سبب کئی دیہاتوں میں کچھ جان لیوا واقعات بھی ہوئے، لیکن برائی غالب رہی۔ ایک شام، مَیں گرلز سکول کے دورے سے واپس آ رہا تھا کہ مَیں نے ایک لڑکی کو دیکھا، جو ایک لمبے بانس کے ساتھ بجلی کے لائن پر ہُک پھینک رہی تھی۔ اس کی نظر مجھ پر پڑی، مگر اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ چوں کہ تمام چھتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں، وہ دوسری چھت پر چلی گئی اور اچانک وہ چھت سے نیچے گلی میں کود گئی اور میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ وہ مجھ سے بھی قد آوار اور تنومند تھی۔ اس نے مجھے اپنی بانہوں میں جکڑا اور بہت زور سے بھینچا، یہاں تک کہ مجھے لگا کہ میری پسلیاں تک اس کی گرفت میں آ رہی ہیں۔ وہ میرے دبلے جسم کو محسوس کرتے ہوئے ہنسی اور بولی: ’’تم گڑیا کی طرح نرم اور نازک ہو۔‘‘ پھر اس نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’تم لپ اسٹک لگاتے ہو؟ تمھارے ہونٹ اتنے سرخ کیوں ہیں؟‘‘ اس نے انھیں اپنے ہاتھ سے بہت زور سے مسلا۔ خوش قسمتی سے ہمارے دفتر کا ایک ملازم مجھے بچانے آگیا۔ وہ بھاگ کر قریبی گھر میں داخل ہوگئی۔ اس آدمی نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکی تو نیم پاگل ہے۔
انضمام کے بعد تقریباً 34 سالہ ملازمت کے دن، مَیں نے زیادہ تر بونیر میں گزارے ہیں۔ اس کے دو دورانیے تھے۔ سپیل ون 1971ء میں شروع ہوا اور 1984ء میں تب ختم ہوا، جب میرا طبی بنیادوں پر سوات تبادلہ کیا گیا۔ سپیل ٹو کا آغاز نومبر 1993ء میں ہوا، جب میرا چترال سے بونیر اور پھر 1998ء میں سوات تبادلہ ہوا۔ پہلا سپیل 14 سال طویل رہا اور مَیں نے اس دوران میں زندگی کے کئی رنگ دیکھے، کچھ الم ناک اور کچھ خوش گوار۔
سب سے الم ناک واقعہ میرے والد کی وفات کا تھا۔ مَیں اس رات ڈگر کالج کالونی کے بنگلے میں اکیلا تھا۔ باورچی اور نوکر اپنے گھر گئے ہوئے تھے۔ میں نیم خوابی کی حالت میں تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ مَیں نے دروازہ کھولا اور باہر لان میں پولیس کی جیپ کو دیکھ کر تھوڑا سا حیران ہوا۔ پولیس والے نے مجھے اپنے ساتھ جانے کو کہا، کیوں کہ ڈی ایس پی کے پاس میرے لیے کچھ ضروری پیغام تھا۔ مَیں نے دروازہ لاک کر دیا اور اس کے ساتھ چلا گیا۔ ہم صرف 15 منٹ میں ڈی ایس پی کی رہایش گاہ پر پہنچ گئے۔ وہ اپنی رہایش گاہ کے باہر کھڑا تھا۔ یہ 8 دسمبر 1979ء کا دن تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ کے بابا ٹھیک نہیں ہیں اور آپ کو سیدو شریف جانا چاہیے۔ جہاں میرا خاندان افسر آباد میں رہتا تھا۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اگر تمھاری جیپ دست یاب نہیں، تو میری جیپ میں سوات چلے جاؤ۔
اتفاق سے ہماری جیپ اور ڈرائیور بخت بلند ایس ڈی اُو کی رہایش گاہ پر موجود تھا۔ چناں چہ ہم ڈگر میرہ سے روانہ ہوئے اور افسر آباد میں اپنی رہایش گاہ پہنچ گئے۔ مَیں دروازے پر دستک دینے ہی والا تھا کہ ہمارا پڑوسی ڈاکٹر شیرین جان گھر سے باہر آیا اور بتایا کہ بابا بیمار ہیں اور انھیں ابوہا لے جایا گیا ہے۔ ڈی آئی جی کے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ، جو ہمارا پڑوسی تھا، کی مہربانی سے، تین پولیس والے ہمارے گھر کی پہرہ داری پر مامور تھے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے