ہمارے سواڑئی، بونیر منتقل ہونے سے بہت پہلے کی بات ہے، کہ ہمارے ایس ڈی اُو خورشید علی خان کا تبادلہ سیدو شریف ہوگیا اور سبز علی خان نامی ایک صاحب نے چترال سے ڈگر آکر چارج سنبھال لیا۔ وہ اس وقت غیر شادی شدہ تھا۔ وہ اپنے ساتھ چترال سے ایک 14 سال کا لڑکا لے آیا تھا۔ چترالی عام طور پر کھانا پکانے اور گھریلو خدمت میں اچھے ہوتے ہیں۔ اُس کا نام الطاف حسین تھا، نیلی آنکھوں والا، نازک سا، بچوں جیسا چہرہ لیکن اپنے کام میں ماہر تھا۔
اسی دوران میں منحوس یحییٰ کی شرم ناک معزولی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے جبر، سازش اور طاقت کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے مرکز اور صوبوں میں حکومت بنالی۔ حالاں کہ یحییٰ کے منعقد شدہ انتخابات درحقیقت اپنی وقعت کھوچکے تھے۔ کیوں کہ وہ متحدہ پاکستان کے تحت ہوئے تھے، جس کا اب دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں تھا، لیکن فوج بھٹو کے پیچھے کھڑی تھی اور بچے ہوئے پاکستان میں اب بھی یہی بالا دست قوت تھی۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں عوامی نیشنل پارٹی نے جمعیت علمائے اسلام کی مدد سے حکومت بنائی اور مخلوط حکومت میں مفتی محمود کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔
مسلم لیگ قیوم گروپ کی طرف سے صوبائی اسمبلی میں بونیر کی نمایندگی ڈگر کے عبدالرؤف خان کو ملی۔ وہ ایک بہت شریف اور صاف گو انسان تھا، مگر بھٹو نے اپنی فطری چالبازیاں جاری رکھیں۔ لیاقت باغ فائرنگ کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگ گئی۔ ولی خان اور اپوزیشن کے کئی سرکردہ رہ نماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ قوم پرست لیڈر افغانستان فرار ہوگئے اور انھوں نے جلال آباد اور کابل سے پاکستان مخالف مہم شروع کر ڈالی۔ اس دوران ملک میں تخریبی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں، خاص طور پر صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں۔
بونیر بھی تخریب کاری کا شکار ہوا۔ ہم اکثر رات کو، اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ ڈگر ریسٹ ہاؤس کے لان میں بیٹھے، جاگتے رہتے۔ دھماکا ہونے کی صورت میں ہم فوراً دھماکے کے مقام پر پہنچتے، تاکہ نقصان کا اندازہ لگا سکیں۔ ایک مرتبہ تو ایک رات میں چار دھماکے ہوئے۔ ایک چنار پُل پر، دوسرا یو بی ایل بینک کے سامنے ایک ٹرانسفارمر کے ساتھ، جو حال ہی میں ڈگر تک بجلی کی توسیع کے بعد نصب کیا گیا تھا اور دو دھماکے ایکسچینج اور ایس ڈبلیو ایچ سٹیشن ہشم سر، ایلئی میں ہوئے، لیکن ان سے ہونے والے نقصانات برائے نام تھے۔ آئی ای ڈیز میں ممکنہ طور پر تباہی کی مطلوبہ طاقت کی کمی تھی۔
کچھ مختصر وقفے کے بعد، بونیر میں تخریبی سرگرمیاں رُک گئیں، لیکن ملک کے دیگر حصوں میں جاری رہیں۔ ایک دن مقامی ایم پی اے ہمارے دفتر میں آیا۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ ہمارا تعلق کہاں سے ہے؟ جیسے ہی ہم نے جواب دیا کہ ہم سوات سے ہیں، اس نے چلا کر کہا: ’’اس کا مطلب ہے کہ ہم ابھی تک سوات کے غلام ہیں۔ ہم تو سوچ رہے تھے کہ اب ہم والی کے جبر سے آزاد ہو گئے ہیں۔‘‘
دراصل وہ اَن پڑھ تھا اور اس نے اپنے خاندانی اثر و رسوخ کے بل بوتے پر الیکشن جیتا تھا۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ ہم یہاں حکومت کرنے نہیں، بل کہ عوام کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔
ذاتی طور پر، مَیں بعد میں اس کا پسندیدہ بن گیا۔ مَیں جب بھی زیرِ تعمیر گرلز سکول کے معائنے کے لیے جاتا، تو اس کا نوکر مجھے حجرے پر لے جانے کے لیے حاضر ہوتا۔ وہاں مجھے خالص دودھ کا پیالہ پیش کیا جاتا، کیوں کہ ڈاکٹر نادر خان نے مجھے چائے چھوڑ کر دودھ لینے کا مشورہ دیا تھا۔ تا دمِ تحریر 13 سال ہوئے ہیں، مَیں ناشتے میں صرف دودھ لیتا ہوں۔
جب بونیر تک بجلی کی توسیع ہوئی، تو لوگوں نے غیر قانونی کنکشن لیے۔ میٹروں کی شدید قلت تھی، شاید اسی وجہ عوام نے مفت مگر غیر قانونی بجلی حاصل کی۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔