’’پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘

Blogger Tariq Hussain Butt

اس کرہِ ارض پرہر انسان کی پہچان اس کے اعلا و ارفع اوصاف سے ہوتی ہے۔ دیانت و امانت کا وصف وہ گوہرِ نایاب ہے، جو انسان کو عرش تک رسائی کے صلے سے نواز دیتا ہے۔ اگرہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالیں، تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرانی ہو تی ہے کہ اہلِ صفا افراد کا تعلق کسی خاص ملک، گروہ، نسل اور زبان سے نہیں ہوتا۔ وہ عالمگیر یت کا استعارہوتا ہے، لہٰذا اس کے خیالات کی خوش بو سے انسانیت خود ہی قابلِ فخر قرار پاتی ہے۔ مذہب کا لبادہ بھی اس وصف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ تاریخ میں ایسے لاتعداد افراد ہیں جو مذہب کے منکر تھے، لیکن کائنات نے انھیں تاریخ کا درخشندہ ستارا قرار دیا۔
میرے سامنے اس وقت داس کیپٹل کے خالق ’’کارل مارکس‘‘ کی شخصیت ہے، جو مذہب کو افیون سے تشبیہ دیتا تھا، لیکن اس کے اندر امانت و دیانت کا جوہر کروڑوں مذہب پرستوں سے زیادہ تھا۔ اپنے نظریات کے فروغ کی خاطر اس نے جَلا وطنی کا زہر پیا۔ حکم رانوں کے جبر و تشدد کو برداشت کیا۔ ریاست کی سختیوں اور زِندانوں کی تکالیف سے بچنے کے لیے کئی ملکوں کی خاک چھانی، لیکن اپنے نظریات سے سرِ مو انحراف نہ کیا۔ افلاس و غربت کے شکنجے کو اپنی ذات پر محسوس کیا، لیکن امانت و دیانت کے جوہر سے کبھی دست کش نہ ہوا۔ غربت کی کیفیت یہ تھی کہ اُس کے اپنے بیٹے کی رحلت پر اس کے پاس کفن دفن کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی، لیکن کیا اُس نے دولت اور لعل و زرو جواہر کی چکا چوند سے اپنے نظریات کو خیر آباد کہا، کیا اُس نے کسی امیر کی چوکھٹ پر سجد ۂ سہو ادا کیا؟ میرا جواب ہے کہ بالکل نہیں۔ وہ چٹان کی طرح اپنے نظریات پر کاربند رہا، تبھی تو تین چوتھائی دنیا نے سوشل ازم کے دامن میں پناہ لی تھی۔ یہ الگ بات کہ حکم رانوں کی بد اعمالیوں اور لعل و زر و جواہر کی خواہش نے اس کے سوشلسٹ نظریات سے بغاوت کر دی، جب کہ غریب اور محروم طبقات آج بھی اس کی سجائی گئی مساوات اور ریاستی خزانوں میں شراکت کی منتظر ہے۔ اس کے ہونہار شاگرد اور انقلابِ روس کے معمار لینن کی زبان سے سنیے:
جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدمِ خاکی جو کہ ہے زیرِ سماوات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تر ی منتظر ِ ِ روزِ مکافات
ابھی کل کی بات ہے کہ گرو نانک نے نئے مذہب کی بنیاد رکھی، تو علامہ اقبال نے اسے مردِ کامل کے نام سے پکارا:
پھر اٹھی آخر صدا تو حید کی پنجاب سے
ہند کواک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
سقرا ط کس مذہب کا پیرو کار تھا؟ افلاطون اور ارسطو کے مذہب کی بھی نشان دہی ضروری ہے۔ کیوں کہ اس وقت دنیا کے دونوں بڑے مذاہب (عیسا ئیت اور اسلام) کا کوئی وجود نہیں تھا۔کیا دُنیا کا فلسفہ ان افراد کی فہم و فراست اور عقل و دانش کے اعتراف کے بغیر زیرِ بحث آسکتا ہے؟ آر شمیدس ،گلیلیو ،آئن سٹائن اورآئزک نیوٹن جیسے عظیم سائنس دانوں نے انسانیت کو اپنی نت نئی ایجادات سے جس طرح مالا مال کیا، اُس سے کوئی ذی ہوش انسان آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ ہماری موجودہ دنیا انھی سائنس دانوں کے نظریات سے تشکیل کردہ ہے۔ وہ نہ ہوتے، تو شاید دنیا اب بھی رجعت پسندی اور جہالت کا لبادہ اوڑھے ہوتی۔ د نیا کی ساری آسایشات اور سہولیات ان سائنس دانوں کی مرہونِ منت ہیں، جنھیں اما نت و دیانت سے زیادہ کسی بھی شے میں دل چسپی نہیں تھی۔ کیسے کیسے شاہ کار انسان اس دھرتی پر پیدا ہوئے اور انسانیت کو امانت و دیانت کا گوہر دے کر رخصت ہو گئے۔ان کی ذات کے ساتھ دولت کی ہوس اور مال و متاع کی محبت کا ہلکا سا بھی اشارہ نہیں ملتا، لیکن اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر شخص دولت کا اسیر بنا ہوا ہے۔ اُسے دولت کے حصول کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں سوجھتی۔ وہ اپنے شب و روز صرف ایک خو اہش میں صرف کر رہا ہے کہ اُسے دولت مند بننا ہے اور پھر اُس کے لیے وہ جھوٹ، مکر،فریب اور بد دیانتی کا ایک ایسا راہِ عمل اختیار کرتا ہے، جس سے معاشرہ انتشار اور خلف شار کا شاخسانہ بن چکاہے۔ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ معاشر ے اہلِ صفا افراد کے جوہرسے ترقی کرتے ہیں۔ جس معاشرے میں عدل و انصاف، صداقت، امانت و دیانت کا دور دورہ ہوگا۔ وہی قوم اعلا و ارفع مقام پر متمکن ہوگی۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اس دنیا میں بے شمار قدرتی خزانوں کا مالک ہونے کے باوجود پاکستان اقوامِ عالم میں اپنا مقام بنانے میں کام یاب نہیں ہوسکا، تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہاں پر کرپشن اور لوٹ مار کا کلچر پورے شباب پر ہے۔ ملکی خزانے کو لوٹنا اور ذاتی تجوریوں کو بھرنے کی عادت نے اس ملک کا کنگال کر دیا ہے۔ دنیا کے کئی چھوٹے ممالک سویڈن، ناروے، ڈنمارک ،آئیر لینڈ اور سویٹرزر لینڈمیں آئین و قانون اور امانت و دیا نت کی بہ دولت تر قی اور خوش حالی میں ہم سے کوسوں آگے ہیں۔ اگر ملکی خزا نہ مخصوص خاندانوں کی جیبیں گرم کرنے کے لیے استعمال ہوگا، توپھر ملکی استحکام اور ترقی کا نام و نشان نہیں ملے گا۔ کیا دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے، جہاں پر حکم ران ذاتی کمپنیاں بنا کر ریاست سے معاہدے کرتے ہیں؟
پاکستان کو 2200 ارب روپے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں، جب کہ وہ بجلی بھی پیدا نہیں کرتیں۔ حکم رانوں کی حرص و ہوس کی وجہ سے 2200 ارب کی رقم بہ دستور حکم رانوں کا لقمہ بنی ہوئی ہے۔ بد قسمی کی انتہا دیکھیے کہ ہمارے حکم رانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان کا پرنالہ وہی پر گرتا ہے، جہاں مالی منفعت ان کے لیے پہلی ترجیح ہے۔ حکم رانوں نے پورے ملک میں ذاتی کمپنیوں کا ایک جال بچھا یاہوا ہے اور ان کا کارو بار دن دگنی رات چوگنی ترقی پر محوِ پرواز ہے۔ ملکِ عزیز گویا ’’پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ملکی خز انوں کی تجوریاں ذاتی تجوریوں میں بدل چکی ہیں اور ان کی عیش کوشی کی داستانیں زبان زدِ عام و خا ص ہیں۔ غربت و افلاس گھر گھر پر دستک دے رہی ہے، جب کہ حکم رانوں کی سوئٹز رلینڈ، امریکہ، انگلینڈ اور یو اے ای میں قیمتی جائیدادوں کی ایک طو یل لسٹ ہے۔ ایک طر ف ہمارا یہ حال ہے، جب کہ دوسری جانب امریکہ،فرانس،انگلینڈ اور جرمنی کے حکم ران اپنے عہدہ کے بعد بو د و باش کے لیے سخت جد و جہد کرتے ہیں،جب کہ ہمارے حکم ران کرپشن کی وجہ سے اربوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ ووٹ کی پرچی ایسے کرپٹ حکم رانوں سے نجات کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، لیکن ہمارے حکم را ن دھاندلی سے مسندِ اقتدار پر فائز ہو جاتے ہیں۔ چین جیسے غیر اسلامی ملک میں کرپشن کی سزا موت ہے، جب کہ ہمارے ہاں کرپٹ لوگ اقتدار کی مسند پر براجمان ہیں۔ در اصل ہمیں کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں قانون کی حکم رانی ہو، کرپشن سے اجتناب ہو، عدل و صداقت کا دور دورہ ہو، انصاف سب کے لیے برابر ہو۔ وہ لوگ جو ملکی خزانے کو لوٹتے ہیں، جب ان کی جگہ زِندانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریاں ہوں گی، تو یہ ملک صفِ اول میں شمار ہو جائے گا۔
نئی سحر کا نیا اجالا میرے لہو سے پھوٹا ہے
آمرِوقت کا ظلم و جبر میری ضرب سے ٹوٹا ہے
آؤ مل کر عہد کریں عظمت کے اس لمحے میں
اسے حوالہ دار کریں وطن کو جس نے لوٹا ہے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے