کبھی خواب نہ دیکھنا (چونتیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

مَیں اس مخمصے کا شکار ہوں کہ ایک پُرامن، ترقی پسند اور خوش حال ریاست کے سنہری دور کے اختتام کو کیسے بیان کروں؟ یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ خلا سے کششِ ثقل کے حدود میں بغیر پیراشوٹ کے داخل ہونا۔
28 جولائی 1969ء نے ہر اس چیز کا خاتمہ کر دیا، جو ہمیں عزیز تھی۔ نشے کی لت کے شکار یحییٰ کو ہر 28 تاریخ کو قوم سے نام نہاد خطاب کرنے کا خبط تھا۔ ہم نے اس تقریر کو سننا تھا۔ کیوں کہ اس کا تعلق ہمارے مستقبل سے تھا…… اور یہ اعلان ان الفاظ میں آیا: ’’مَیں نے دیر، سوات اور چترال کی ریاستوں کو مغربی پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘
اس نے ون یونٹ کو تحلیل کرکے چاروں صوبوں کو بہ حال کرنے کا اعلان بھی کیا۔
کہا جا رہا تھا کہ یہ سب کچھ بھٹو کے کہنے پر مشرقی پاکستان پر اکثریت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا۔ بھٹو جانتا تھا کہ اگر انتخابات ہوئے، تو ریاستوں میں رہنے والے عام لوگوں کے ووٹوں کے بغیر وہ شیخ مجیب کو ہرا نہیں سکتا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جنرل پیرزادہ نے یحییٰ کو ریاستوں کو ضم کرنے کا مشورہ دیا۔
لیکن ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ تمام زیرِ زمین تنظیمیں جو انضمام کا سہرا اپنے سر لیتی ہیں، عوام کو گم راہ کرتی ہیں۔ سوات کے حکم ران سے نفرت پر مبنی اپنی مذموم خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کا ان کا کوئی حصہ نہیں تھا، نہ ان میں ایسی کوئی صلاحیت ہی تھی۔ کسی ’’ملکی رور ولی‘‘، جماعتِ اسلامی کو انضمام کا کریڈٹ یا بدنامی نہیں لینی چاہیے۔ انضمام کا خدشہ اس دن سے واضح تھا، جب 1954ء میں الحاق کی ضمنی دستاویز پر دستخط ہوئے تھے۔
 جیسے ہی غاصب جنرل یحییٰ کی تقریر ختم ہوئی، ہم نے سوچنا شروع کیا کہ ہمارے ریاستِ سوات کے ہزاروں ملازمین کا کیا ہوگا؟ شام کو مَیں سیدو شریف کی طرف گیا، تاکہ ’’سیدو والوں‘‘ کا ردِعمل دیکھ سکوں۔ سیدو ہسپتال کے سامنے ٹی اینڈ ٹی آفس کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ وہ یحییٰ کو ٹیلی گرام بھیج رہے تھے اور اس سے ان آمرانہ احکامات کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ٹی اینڈ ٹی کے انچارج امان اللہ نے مجھ سے فارم بھرنے میں ان کی مدد کرنے کو کہا، جن میں ایک ہی فقرہ بار بار لکھنا تھا: ’’ہم اپنی ریاست چاہتے ہیں۔‘‘ ایک گھنٹے کے بعد میری انگلیوں میں درد ہونے لگا اور مَیں دفتر سے نکل کر اپنی رہایش گاہ A.B.2 واپس آگیا۔
اگلے دن جب میں دفتر گیا، تو مَیں نے دیکھا کہ میرے کچھ ساتھی درازوں سے اپنی ذاتی اشیا نکال رہے ہیں۔ مجھے ریاستی موٹر کار کا ایک بہت ہی بوسیدہ جھنڈا ملا، جو ودودیہ ہال کے بورڈ کو ڈیزائن کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ مَیں اسے اپنے گھر لے آیا۔ وہ اب بھی میرے بیٹے کے پاس ہے، جس نے اسے بہ طورِ یادگار محفوظ رکھا ہے۔
شام کو لوگوں کا ایک بڑا جلوس مینگورہ کی طرف رواں دواں تھا۔ واپسی پر محمود الحسن بٹ نامی پنجابی تاجر کا ’’سلمان شہد فارم‘‘ لوٹ لیا گیا۔ اگلے دن فوج حرکت میں آگئی۔ خواتین نے بھی احتجاجی مارچ کیا، لیکن یہ بغیر کسی حادثے کے ختم ہوگیا۔
ریاستی ادارے معمول کے مطابق چلتے رہے اور والی صاحب بھی معمول کے مطابق ریاستی معاملات اور عدالتی کاموں میں شریک ہوتے رہے۔ 16 اگست کو نئے سول سیٹ اَپ نے چارج سنبھالتے ہوئے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ ایک کرنل سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا، جس کی مدد ایک میجر کر رہا تھا۔ اس کا نام میجر اشرف تھا۔
ریاستی افواج کے نائب سالار، کمانڈر اور بعض افسروں کو فوری طور پر صوبائی محکمہ جات میں تعینات کیا گیا۔ فوج کے دیگر عہدہ داروں اور سپاہیوں کی تحلیل کے لیے فوج کے سینئر افسر سید جہان خان آف شاہ پور کو عارضی طور پر نائب سالار مقرر کردیا گیا۔ میرے والد صاحب چوں کہ فوج کے مکمل ریکارڈ کے انچارج تھے، تو ان کو بھی تین مہینوں کے لیے اپنے سابقہ عہدے پر رہنے دیا گیا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے