سید احمد (شہید) بریلوی (1786ء تا 1831ء) جو شاہ ولی اللہ دہلوی کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندوستان میں اسلامی اقدار کے احیا کے علم بردار بنے، شمال مغربی ہندوستان کے علاقوں، خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا، میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے مظالم کے خلاف جہاد کے لیے سرگرم ہوئے۔
سید احمد (شہید) نے یوسف زئی پختونوں کے علاقے کو اپنی تحریک کے لیے چنا۔ کیوں کہ ان کی بہادری، جنگ جو مزاج اور اسلام سے گہری وابستگی اس مقصد کے لیے موزوں سمجھی گئی۔
٭ تحریکِ مجاہدین کا مقصد اور چیلنجز:۔ سید احمد کی تحریک، جسے ’’تحریکِ مجاہدین‘‘ یا ’’وہابی تحریک‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کا مقصد اسلامی اُصولوں کے مطابق حکومت کا قیام اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ظلم و ستم سے آزادی حاصل کرنا تھا…… لیکن جب جنگِ شیدو (1827ء) میں شکست ہوئی، اور یہ خیال کیا گیا کہ سید احمد (شہید) کو یار محمد خان کے خانساموں نے زہر دیا، تو تحریک کو شدید دھچکا لگا۔ شکست کے بعد سید احمد (شہید) نے یوسف زئی علاقوں، بہ شمول بونیر، دیر اور سوات، کا دورہ کیا، تاکہ اپنے جہادی مشن کو جاری رکھ سکیں اور مقامی لوگوں کو تحریک میں شامل کرسکیں۔
٭ سوات کا دورہ؛ جہاد کی موبلائزیشن:۔ سید احمد نے اپریل سے جون 1827ء تک سوات کا سفر کیا۔ غلام رسول مہر کے مطابق، اُنھوں نے مختلف قبائل، بہ شمول آفریدی، مہمند اور خلیل، کو جہاد کی دعوت دی اور انھیں تحریری پیغامات بھی بھیجے۔ اس حوالے سے سید احمد نے خود لکھا: ’’اس حادثے کے بعد فقیر [سید صاحب] نے یوسف زئی کے مختلف اضلاع مثلاً: چمل، بونیر اور سوات کا دورہ کیا اور ان بستیوں کے مومنوں اور مسلمانوں کو بالمشافہ اِقامتِ جہاد و اِزالۂ فساد کی ترغیب دی۔‘‘ (مہر، سید احمد شہید، 430)
سوات کے دورے سے پہلے اور دورے کے دوران میں سید احمد (شہید) نے درجِ ذیل مقامات کا رُخ کیا اور مختلف طبقات کو اپنے ساتھ ملایا:
٭ چنگلی:۔ یہاں سید احمد نے ایک مہینا قیام کیا اور بونیر اور چکدرہ کے دورے کا منصوبہ بنایا۔
٭ کوگا:۔ یہاں سادات اور دیگر اکابرین کو جہاد میں شامل کیا۔
٭ تختہ بند:۔ لوگوں کی باہمی دشمنی کو ختم کرنے اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔
٭ بریکوٹ:۔ درۂ کڑاکڑ سے گزر کر وہاں دو دن قیام کیا۔
٭ چکدرہ، اوچ، اور کوٹی گرام:۔ عید الفطر کی نماز کوٹی گرام میں ادا کی، جہاں مقامی لوگوں نے دعوتوں اور تحائف سے سید احمد کی حمایت کا اظہار کیا۔
٭ سواتی عوام کی شرکت اور استقبال:۔ سوات کے مختلف علاقوں میں سید احمد (شہید) کا استقبال عوام و خواص نے جوش و جذبے سے کیا۔ بانڈئی، مینگورہ، چارباغ، گلی باغ اور خوازہ خیلہ میں لوگوں نے نہ صرف اُن کا استقبال کیا، بل کہ اُنھیں اپنے گھروں میں ٹھہرایا، تحائف پیش کیے اور جہاد کے لیے حمایت کا اعلان کیا۔ خوازہ خیلہ سے سید احمد (شہید) نے سلیمان شاہ (والئی چترال) کے پاس سفیر بھی بھیجا، تاکہ اُنھیں بھی جہاد کے لیے راغب کیا جاسکے۔
٭ سواتی معاشرتی حالات:۔ سوات کی سماجی اور مذہبی صورتِ حال، پٹھان روایات اور قبائلی نظام پر مبنی تھی۔ سید احمد نے اس معاشرے میں موجود گروہی تقسیم، جسے ’’پتنہ داری‘‘ کہا جاتا تھا، ختم کرنے کی کوشش کی، تاکہ اجتماعی اتحاد قائم کیا جاسکے۔ اُن کے اس مشن کو سادات اور میاں گان جیسے طبقات نے خاص طور پر سراہا۔
٭ نتائج اور اختتام:۔ سید احمد (شہید) کا سوات کا دورہ ان کے جہادی مشن کو مضبوط بنانے کی ایک اہم کوشش تھی۔ انھوں نے مقامی لوگوں کو متحرک کیا۔ ان کے مسائل کو سمجھا اور انھیں متحد کرنے کی کوشش کی…… لیکن ان کا یہ مشن طویل المدت سیاسی و فوجی کام یابی میں تبدیل نہ ہوسکا۔
یہ سوال آج بھی اہم ہے کہ سوات، جو 20ویں صدی میں ایک جدید ریاست بنا اور بعد میں پاکستانی ریاست کا حصہ بنا، 1990ء کی دہائی میں تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی (TNSM) اور 9/11 کے بعد تحریکِ طالبان سوات کا مرکز کیوں بنا؟
کیا اہلِ سوات نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟
سید احمد کے تجربات ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ مذہبی تحریکوں کی کام یابی کے لیے مقامی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات کا گہرا علم اور حکمتِ عملی ضروری ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
One Response
Wonderful web site Lots of useful info here Im sending it to a few friends ans additionally sharing in delicious And obviously thanks to your effort