شاطر دنیا اور جذباتی قوم

Blogger Ikram Ullah Arif

نہ جانے وجوہات کیا ہیں…… مگر تاریخ کا مشاہدہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں جذباتیت بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ یہ جذباتیت مختلف سطحوں پر مشتمل ہے۔ مثلاً: علاقائی نسبت، قومی نسبت، مسلکی نسبت، لسانی نسبت اور دینی نسبت۔
اس جذباتیت سے نفرتیں جنم لیا کرتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان نفرتوں کو فروخت بھی کیا جاتاہے۔ یہ ایک پوری صنعت ہے۔ اس منڈی میں فقط نفرتوں کا بیوپار ہوتا ہے۔ اس کاروبار سے فائدہ لینے والوں میں حکومتی عمال بھی شامل ہوتے ہیں، ریاستی اہل کار بھی ملوث ہوتے ہیں اور دینی ومذہبی رہ نما بھی بہتی گنگا میں اشنان فرماتے رہتے ہیں۔
یہ جذباتیت کسی ایک ملک تک محدود نہیں، بل کہ پوری امتِ مسلمہ پر نظر دوڑایئے۔ ایک کامل ہیجانی کیفیت ہے کہ مکمل طور پر طاری ہے۔
نہ جانے جذبات تھے، منصوبہ بندی تھی، تنگ آمد بجنگ آمد والی صورتِ حال تھی یا کچھ اور…… مگر گذشتہ سال اکتوبر میں حماس نے اسرائیل کے اندر گھس کر چند لوگوں کو مارا اور چند ایک کو یرغمال بنا کے لے گئے۔ اس کے بعد اسرائیل نے حماس کے زیرِ انتظام غزہ میں جو کچھ کیا، اُس کی کہانی لکھنے کے قابل ہے اور نہ سننے کے۔
بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیلی وزیرِاعظم کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے، اُس کو گرفتار کرنے کا ورانٹ جاری کردیا ہے…… مگر باوجود اس کے اسرائیلی مظالم میں کمی نہ آسکی۔
دوسری طرف فلسطینیوں کی حمایت میں مسلمان ممالک میں مسلسل جذباتیت جاری ہے۔ عوام غصے سے بپھر چکے ہیں، مگر کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ اس انتہا کو چھوتی جذباتیت سے اہلِ غزہ کو کیا فائدہ پہنچا؟
کیا ان جذبات سے اسرائیلی مظالم کم ہوئے یا اسرائیل کے لیے امریکی امداد وحمایت میں رُکاوٹ آئی؟
ظاہر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ تو ایسے میں پھر مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ بغیر عمل کے جذبات فقط اپنی بلڈ پریشر کو بڑھانے سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ جذبات ’’امریکہ عراق جنگ‘‘ میں بھی عروج پر تھے۔ نتیجتاً امریکہ پُرامن ترقی یافتہ اور عالمی تھانے دار اب بھی ہے، جب کہ عراق کو دنیا بھر کے غیرمحفوظ اور ناکام ریاستوں میں شمار کیا جاتاہے۔
بحث اس پر نہیں کہ امریکہ اور عراق میں کون ٹھیک اور کون غلط راستے پر تھا اور اس جنگ کا ذمے دار کون تھا؟ مقدمہ صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ’’جذباتیت‘‘ یا جذباتی روش سے زمینی حقیقت کس حد تک تبدیل ہوئی؟
روس افغانستان جنگ اور پھر امریکہ افغانستان جنگ میں بھی مسلمان جذباتیت کی وجہ سے مغلوب رہے۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود افغانستان، روس اور امریکہ سے دنیاوی معاملات، امن وامان اور خوش حالی کے حوالے سے ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ ’’جذباتیت‘‘ کا حاصل کیا ہوا؟
امریکہ، افغانستان سے نکل گیا، تو خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ مسلمان دنیا میں عوام نے امریکی انخلا کو ’’ایمان کی فتح‘‘ اور ’’امریکہ کی شکست‘‘ قرار دیا۔ لیکن اگر یہ واقعی ایمان کی فتح تھی، تو آج تک کتنے اسلامی ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے؟
طالبان نے امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں جو خود ساختہ ’’اسلامی نظام‘‘ قائم کیا ہے کہ جس سے اُن جذبات کو نقصان نہیں پہنچا، جو امریکی انخلا پر اسلامی دنیا کے عوام نے طالبان سے وابستہ کیے تھے۔
اب حالیہ شام ہی کی حالت ملاحظہ ہو۔ یہ بات درست ہے کہ شام میں ایک خاندان کی 50 سالہ بادشاہت میں ظلم وجبر کے نظارے دیکھے گئے۔ اس بدترین بادشاہت کے خاتمے پر خوشی منانا بنتا ہے۔ جذبات کا اظہار بھی فطری امر ہی ہے…… مگر اس معاملے میں اب تک جذبات میں جو ہیجانیت دیکھنے کو ملی ہے، وہ حیران کن ہے۔ کیوں کہ اکثریت نے اس کو ایمان، مذہب اور مسلک کے تناظر میں دیکھ کر جذبات کے اظہار میں کچھ زیادہ گرم جوشی سے کام لیا ہے۔
حقیقی جائزہ لیا جائے، تو کچھ عرصہ بعد جشن منانے والے شاید کفِ افسوس ملنے پر مجبور ہوں۔
ہمیں اُن تمام مسلم دانش وروں کا جائزہ لینا چاہیے جو ’’جذباتیت‘‘ کو ہوا دیتے ہیں۔ اس عمل کے نتائج کیا نکلیں گے؟ نیز اس کی روک تھام کیسے کی جائے؟ کیوں کہ اربوں مسلمانوں کے ’’پاکیزہ جذبات‘‘ سے اگر غیر مسلم ظالم ڈرون کو نقصان نہیں پہنچ سکتا، تو ایسے خالی خولی جذبات کا فائدہ کیا؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے