کبھی خواب نہ دیکھنا (چھبیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

چکیسر سے میرا تبادلہ تحصیل بلڈنگ کی چھت کے سلیب سے مشروط تھا۔ ٹھیکہ دار کی الم ناک موت کے باعث اس میں تاخیر ہوئی۔ کیوں کہ اس کا خاندان شدید صدمے میں تھا۔ نومبر کے آخر میں، ٹھیکہ دار کے بیٹے نے، جو ابھی کالج کا طالب علم تھا، نے بقیہ کام کا چارج سنبھال لیا اور اپنے عملے کو کام میں تیزی لانے کے لیے تیار کر دیا۔ آخرِکار سلیب مکمل ہوگئی۔
اُسی شام کو برف باری بھی شروع ہوگئی۔ ہم نے سلیب پر ریت کی ایک انچ موٹی تہہ ڈال دی تھی تاکہ برف یا ٹھنڈ چھت کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اگلی صبح، میدانی علاقوں میں بارہ انچ تک موٹی برف پڑچکی تھی۔ دریں اثنا حاکم صاحب محمد شیرین نے والی صاحب کو فون کیا کہ انھیں اوپل کنڈاؤ پاس کے راستے، گھر جانے کی اجازت دیں۔ کروڑہ اور چکیسر کے درمیان کوئی سڑک نہیں تھی، بل کہ خچروں کے آنے جانے قابل ایک رستہ تھا۔ اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ مَیں بہت خوش ہوا اور ہم اگلے دن صبح سویرے چکیسر سے روانہ ہوگئے۔ حاکم صاحب خچر پر سوار تھے اور ہم پیدل چل رہے تھے۔ تقریباً دس سپاہی ہمارے ساتھ ڈیوٹی پر تھے، تاکہ برف پر چلنے میں، ہماری رہ نمائی اور مدد کرسکے۔ جوں جوں ہم بڑھتے گئے، برف گہری ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ یہ ہمارے گھٹنوں تک پہنچ گئی۔
اوپل کنڈاؤ کے بالکل اوپر، حاکم صاحب خچر سے اُتر گئے۔ کیوں کہ اُترائی کی طرف سواری خطرناک تھی۔ سپاہی ہم سے آگے قدم رکھتے اور ہم اُن کے پیچھے پیچھے چلتے۔ دو آدمیوں نے حاکم صاحب کو احتیاط سے پکڑ رکھا تھا۔ کیوں کہ وہ بہت بوڑھے اور لاغر تھے۔ مَیں اُن کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا۔ ایک بار، میں پھسل بھی گیا اور حاکم صاحب اور اس کے ساتھیوں کو لے کر کئی گز تک پھسل گیا۔ جب سنبھل گئے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھ سے کہا کہ سپاہیوں کو مجھے (راقم کو) پکڑنے دوں، لیکن مَیں نے سوچا کہ 21 سال کی عمر میں یہ مناسب نہیں کہ سپاہیوں پر بوجھ بنوں۔ لہٰذا احتیاط کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ ہم دیر شام کو کروڑہ پہنچ گئے۔ پولیس چوکی کے انچارج نے خوب الاؤ جلا رکھا تھا۔ ہم نے رات کا کھانا کھایا۔ جی چاہتا تھا کہ گلزار کے اس شعر پر عمل کریں:
رات بھر سرد ہوا چلتی رہی
رات بھر ہم نے الاؤ تاپا
 مگر تھکن کے مارے جلدی سو گئے۔
گلی صبح، ہم ایک بار بردار ٹرک پر سوار تھے۔ اس کے ٹائروں پر زنجیریں لگی تھیں اور شانگلہ کے راستے دوپہر کے آخر تک ہم بہ حفاظت مینگورہ پہنچ گئے۔ مجھے پانچ دن آرام کی غرض سے چھٹی دی گئی، جس کی مجھے اشد ضرورت تھی۔
اب چکیسر کے لوگوں کے بارے میں چند باتیں۔ اپنی 43 سالہ ملازمت میں، کبھی جن لوگوں سے ملا ہوں، چکیسر کے لوگ اُن میں، سب سے زیادہ مہمان نواز، محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہندوؤں کے بھی چند گھر تھے، جن کے ساتھ دوسری مسلم اکثریت کی طرح سلوک کیا جاتا تھا۔ وہ سب تاجر تھے۔ ان کی ادویہ کی دو دکانیں بھی تھیں۔ پانی کا ایک نالہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں میں سے گزرتا تھا، لیکن دونوں اسے استعمال کرتے اور اسے صاف و پاک رکھتے۔
ایک ہندو کمپاؤنڈر ’’سیج رام‘‘ میرا بہت گہرا دوست بن گیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ مجھے اپنے گھر بھی لے گیا اور مجھے اپنی بہنوں سے بھی، ڈاکٹر سلطان کے چھوٹے بھائی کے طور پر، ملوایا۔ جب کبھی وہ دور دراز مریضوں کی علاج کے لیے مریضوں کے گھر جاتا، تو مَیں بھی اکثر اُن کے ساتھ چلا جاتا۔ یوں مَیں نے چکیسر کے آس پاس کی تمام وادیوں کو اس کی معیت میں ایکسپلور کیا۔ جب میں چکیسر کے لوگوں کی بات کرتا ہوں، تو میرے منھ سے ہمیشہ تعریف کے الفاظ ہی نکلتے ہیں۔
حاکم صاحب نے اپنا استعفا پیش کر دیا اور مَیں بھی چکیسر کے کاموں کو پورا کرنے کی خاطر چند دوروں کے بعد، مقامی طور پر ’’ایڈجسٹ‘‘ ہو گیا۔ (جاری ہے)
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے