کبھی کبھی، مَیں اپنے باس کے رویے سے پریشان ہوجاتا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ مجھے مخالف کیمپ میں سمجھا ہے یا اپنی طرف؟ ریاست کے بعض اعلا افسران نے بالواسطہ طور پر اس کا مذاق بھی اڑایا، لیکن مَیں نے ان سازشوں سے دور ہی رہنے کی کوشش کی۔ کچھ ٹھیکے دار ایسے بھی تھے جو میری حیثیت کو کم زور کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے، خاص طور پر ان میں سے دو بہت خودسر تھے، لیکن مَیں نے ان کے راستے میں کھڑے ہونے اور جہاں تک ہوسکا، ان کو بے نقاب کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
ان میں سے ایک کا کچھ نہ کچھ تعلق والی صاحب سے تھا اور دوسرا مینگورہ کے ایک نچلے طبقے کا آدمی تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مخبر ہے اور والی صاحب کو معاشرے کے بعض گروہوں کے بارے میں گم راہ کن معلومات دے رہا ہے۔ وہ گندی عادتوں، گندے لباس اور نسوار سے لتھڑے ہونٹوں والا آدمی تھا۔
ایک بار ہم نے پبلک سکول سنگوٹہ میں دو حصوں میں بہ حالی کے کچھ کام انجام دیے۔ ایک حصہ اس شخص کے ذریعے انجام دیا گیا۔ اس نے میری تمام ہدایات کو نظر انداز کر دیا۔ آخری معائنہ پر والی صاحب نے دونوں حصوں میں معیار کا فرق نوٹ کیا اور مجھے تنبیہ کی۔ مَیں نے گول مول بات نہیں کی اور انھیں ساری حقیقت بتا دی۔ وہ ناخوش تھے، لیکن خاموش رہے۔ ان کے خوب صورت چہرے سے ناراضی ٹپک رہی تھی۔
پھر جب والی صاحب ایک عمارت کا معائنہ کر رہے تھے، تو انھوں نے فرش کے خراب معیار کو نوٹ کیا، تو مَیں نے کہا کہ یہ ٹھیکہ دار سب سے زیادہ بدتمیز اور خودسر ہے۔ والی صاحب نے موقع پر ہی اسے ہمیشہ کے لیے ’’بلیک لسٹ‘‘ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے نام سے یا دوسرے ٹھیکہ دار کے ساتھ شراکت میں اسے ٹھیکہ دینے پر پابندی لگ گئی۔ اس گندے آدمی نے میرے چھوٹے بھائی فضلِ مبعود اور اس کے ساتھی عطاء محمد کو ملازمت سے برطرف کروادیا۔ وہ مینگورہ میں نئے بنائے گئے ’’میونسپل ونگ‘‘ میں کام کر رہے تھے۔
یہ ناپسندیدہ شخص، جس کا مَیں نے پہلے ذکر کیا، پیشے کے اعتبار سے قصاب اور کباب فروش تھا۔ اس نے والی صاحب کے یومِ تاج پوشی کی تقریبات پر ان کی تعریف میں کچھ اشعار بھی لکھے، جو اس وقت کے سرحدی صوبے کے اخبارات اور جرائد میں شائع ہوئے۔
بہ ہرحال، آخرِکار وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔
چکیسر میں میرے دوسرے سپیل کے دوران میں ایک بڑا سانحہ پیش آ یا۔ تحصیل کی عمارتوں کے لیے سیمنٹ اور اینٹوں سے لدے دو ٹرکوں کے ساتھ چکیسر جاتے ہوئے ہم یخ تنگے ٹاپ پر چند منٹ کے لیے رک گئے۔ میرے ساتھ ٹھیکہ دار اور ایک سینئر ساتھی فضل رحیم خان آف قمبر بھی موجود تھے۔ چوں کہ مَیں، ابھی سیکھنے کے مرحلے سے گزر رہا تھا، فضلِ رحیم خان میرے ساتھ جا رہے تھے، تاکہ حاکم کی عدالت کی چھت کی سلیب ڈالنے میں، میری مدد کرسکے۔
ٹاپ پر، ہم نے ٹرکوں کا تبادلہ کیا۔ مَیں ایک ٹرک پر ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر سوار ہوا اور دوسرے ٹرک پر میرا سینئر ساتھی فضلِ رحیم اور ٹھیکہ دار سوار ہوئے۔ ہمارا ٹرک پہلے روانہ ہوا۔ سات موڑ نیچے، ہم ’’گوَڈ‘‘ کے ہوٹل پہنچ گئے۔ یہ ہوٹل ایک ایسے شخص کی ملکیت تھا، جس نے برفانی تودے میں اپنی دونوں ٹانگیں کھو دی تھیں۔ ہوٹل پر ہم دوسرے ٹرک کا انتظار کرنے کے لیے رُک گئے، لیکن وہ کبھی نہیں آیا۔ وہ ٹرک پہلے ہی موڑ پر گہری کھائی میں گر گیا تھا، جس میں ٹھیکہ دار امیر محمد اور میرے سینئر فضل رحیم خان دونوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
مَیں واپس ٹاپ پر پہنچا اور پولیس چوکی یخ تنگی سے فون پر اپنے افسر کو اطلاع دی۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ مَیں وہیں رہوں اور حاکم شیبر خان کی سربراہی میں پورن سے اور حاکم فصیح اللسان کے الپورئی سے مدد کا انتظار کروں۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے ساتھی کی لاش کو قمبر لے گئے اور ٹھیکہ دار کی لاش کو ٹرک میں سیدو شریف پہنچایا گیا۔
اس حادثے نے ڈھیر سارے تنازعات اور آفٹر شاکس پیدا کیے۔ ان میں سب سے اوپر سازشی تھیوری تھی۔ جب مَیں جہانزیب کالج کے قریب اپنے افسر کی رہایش گاہ پر پہنچا، تو اس نے مجھے گلے لگایا۔ وہ بار بار مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا مَیں ٹھیک ہوں؟ در اصل سیدو شریف میں آدھی رات کو میری موت کی افواہ پہنچی تھی۔ صبح سویرے پروفیسر ہمایون اور بہت سے لوگ تعزیت کے لیے آئے، مگر مجھے زندہ سلامت دیکھ کر بہ یک وقت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی۔
والی صاحب یورپ روانہ ہوگئے اور ریجنٹ کونسل نے حادثے کی تحقیقات شروع کر دیں۔ ریجنٹ کونسل، والی صاحب کی غیر موجودگی میں ریاستی اُمور کو مکمل اختیارات کے ساتھ چلانے کے لیے بنائی گئی سہ رُکنی ’’باڈی‘‘ تھی۔ تین ممبر وزیرِ ملک، وزیرِ مال اور سپہ سالار صاحب تھے۔ مجھے بھی کچھ سوالات کے جوابات کے لیے بلایا گیا، جو میں نے دیے۔
اس واقعے سے میرے حوالے سے دور رس نتائج حاصل ہوئے۔ تحصیل آفس پر سلیب ڈالنے کے بعد مجھے مستقل طور پر سیدو شریف ٹرانسفر کر دیا گیا۔ مَیں نے کئی ناکام معاشقوں کے بعد شادی کرلی۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔