ریاستی دور کا ایک خواجہ سرا

Blogger Fazal Raziq Shahaab
 ہمارے افسر آباد والے گھر کے عقب میں چند چھوٹے چھوٹے کچے سے مکانات تھے۔ ان میں سے ایک مکان میں ریاست کے ’’بگلرز‘‘ کا ایک سپاہی رہتا تھا،جس کا نام ’’کشمالے ماما‘‘ تھا۔ 
کشمالی ماما کا ایک بیٹا نصراللہ جان میرا اور میرے بڑے بھائی فضل وہاب کا کلاس فیلو تھا۔ اُس کے دوبھائی عمر میں بڑے تھے۔ ایک تو عزیز اللہ تھا، جو بعد میں ولی عہد صاحب کے ساتھ بہ طور بیرا ملازم ہوگیا تھا۔ سب سے بڑا حبیب اللہ جان کبھی کبھی دکھائی دیتا، ورنہ زیادہ تر گھر سے غائب رہتا۔ ہم بچے تھے، ہم کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں جایا کرتا تھا۔ گھر میں اُس وقت آتا جب اُس کے والد کہیں جاچکے ہوتے۔
حبیب اللہ جان کی حرکات و سکنات، بولنے کا اور چلنے کا انداز بالکل عورتوں کی طرح ہوتا۔ ہونٹ دنداسہ سے سرخ ہوتے۔ ایسا لگتا تھا کہ بھائی اور باپ اس کو بالکل دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔شاید ماں ہی وہ واحد ہستی تھی، جو اُس کے لیے کوئی تڑپ کوئی ممتا رکھتی ہوگی۔ 
حبیب اللہ جان کے کپڑے بھی عجیب شوخ رنگوں والے ہوتے تھے۔ سرخ کمخواب یا کناویز کے ریشمی شلوار قمیص پہنتا تھا۔ دُبلا پتلا سا، ہلکا پھلکا، مٹکتا لچکتا سا جسم تھا۔ باتیں کرتے وقت ناک پر اُنگلی رکھتا۔
کبھی بدقسمتی سے باپ کی موجودگی میں آتا، تو وہ اُسے مار کر بھگا دیتا۔ جب ہم ذرا بڑے ہوگئے، تو ہمیں پتا چلا کہ یہ ’’خنثیٰ مشکل‘‘ پیدا ہوا ہے۔
پھر اچانک وہ غائب ہوگیا۔ قسم قسم کی افواہیں افسر آباد میں پھیل گئیں، جو سب سے زیادہ قابلِ یقین سمجھی جاتی تھیں۔ وہ یہ کہ اُسے ایک اعلا فوجی افسر کا بیٹا اپنے گاؤں لے گیا ہے کہ بے چارا چین سے رہ سکے۔
یہ بات مجھے اس لیے یاد آگئی کہ گذشتہ دنوں میڈیا پر ایک خبر پڑھی کہ پشاور میں ایک خواجہ سرا کی میت سارا دن اس لیے پڑی رہی کہ کوئی مولوی اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پھر رات کو کسی ملا نے 50 ہزار روپیا لے کر نمازِ جنازہ پڑھائی۔
اَب اس بے چارے نے تو خود اس طرح پیدا ہونے کی خواہش تو نہیں کی ہوگی۔ اللہ کا خوف کریں۔ آخر یہ بھی تو انسان ہیں۔ مجھے اس وقت ایک خواجہ سرا کی وہ پوسٹ یاد آرہی ہے کہ اگر میری پیدایش میرے بس میں ہوتی، تو مَیں خود کو ایک چھوٹا سا پلا پیدا کرتا اور ساری زندگی ماں کے ساتھ رہتا۔
عورت اور مرد بالغ ہوں، تو اُن کی نمازِ جنازہ میں پڑھنے والی دعا اور درود یک ساں ہوتے ہیں، تو ان بے چاروں کے لیے بھی اسی طرح جنازہ کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟
مَیں کوئی عالم فاضل نہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور آئمۂ شرعِ متین بیچ اس مسئلہ کے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے