گذشتہ دنوں حکومت نے ایک اور آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے پاس کروالیا کہ جس کے تحت مسلح افواج کے تینوں سربران کی مدتِ ملازمت تین سال کے بہ جائے پانچ سال کر دی گئی۔ بہ ظاہر حکومت نے عوامی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ معمول کی کارروائی ہے اور اس کی کچھ توجیحات بھی حکومتی اربابِ اختیار اور کابینہ ارکان میڈیا پر دے رہے ہیں، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ معمول کی کارروائی نہیں بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ جن مقاصد کے پیشِ نظر حکومت یہ اقدام کرتی ہے، وہ تاریخی طور پر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر آیندہ بھی اس کے متوقع نتائج ملنا ممکن نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم متوقع نتائج نہ ملنے کی وجوہات کا جائزہ لیں، آئیں ہم ذرا ماضیِ قریب کے تین واقعات بیان کریں۔
٭ پہلا واقعہ:۔ یہ کراچی کے طاقت کے ایوانوں کا منظر تھا۔ جب صدر سکندر مرزا نئی کابینہ کے لیے نام فائنل کر رہا تھا۔ ایک سینئر خاندانی سیاست دان نے دیکھا اور پوچھا جنابِ صدر! آپ آرمی کے حاضرِ سروس چیف کو وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع بنا رہے ہیں۔ کیوں کہ سکندر مرزا جنرل ایوب کو اعتماد میں لے کر مارشل لا لگانے کی غلطی کرچکا تھا۔ سکندر مرزا کا قہقہہ گونجا اور بولا سیاست حکومت کی طاقت کا نام ہے اور یہ کر کے مَیں نے حکومت مضبوط کرلی۔ اس نے دوبارہ قہقہہ لگایا۔ مگر اس قہقہے کی گونج ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ سکندر مرزا اپنی بیگم ناہید مرزا کے ساتھ لندن جانے والی فلائٹ میں سوار تھا۔ کیوں کہ فیلڈ مارشل صاحب یہ بتا کر جاچکے تھے کہ سر میرے کمانڈر کہتے ہیں کہ جب ملک میں مارشل لا ہے تو پھر صدر کیسا؟ پھر صدر بھی ہم اور چیف ایگزیکٹیو بھی ہم ہی ہیں۔
٭ دوسرا واقعہ:۔ یہ 5 جولائی کی ایک گرم رات تھی۔ جب وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو یہ خبر دی گئی کہ فوج نے ٹیک اوور کر لیا ہے اور اب اُن کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔ یہ سن کر بھٹو صاحب نے غیر یقینی انداز میں کہا کہ کیا ضیاء الحق کو گرفتار کر لیا گیا ہے یا قتل کر دیا گیا ہے، یا ممکنہ طور پر ان کو بے خبر رکھا گیا ہے؟ اس کے بعد بھٹو صاحب نے اپنے فون آپریٹر کو آرمی ہاؤس فون ملانے کا حکم دیا۔ چند منٹ بعد بھٹو صاحب کے کمرے کی فون کی گھنٹی بجی اور بھٹو صاحب کو بتایا گیا کہ آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق صاحب لائین پر ہیں۔ بھٹو صاحب کی آنکھوں میں چمک آئی اور یہ امید بنی کہ فوجی ٹیک اوور کی خبر غلط ہے۔ رسمی سلام دعا کہ بعد جب بھٹو صاحب نے کہا کہ ضیا! یہ کیا افواہ ہے کہ فوج قابض ہوگئی؟ تو آگے سے جنرل ضیا کی انکسار بھری آواز آئی، جی سر! یہ خبر درست ہے۔ مجھ پر میرے کمانڈرز کا شدید دباو تھا۔ ملک بچانے کے لیے یہ سب ناگزیر تھا۔ اب آپ تیاری کرلیں۔ کل صبح آپ کو مری بھیج دیا جائے گا۔ بیگم صاحبہ آپ کے ساتھ جاسکتی ہیں، لیکن بچے بہ ہرحال کراچی یا لاڑکانہ منتقل کیے جائیں گے ۔ باقی فکر کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعد فون بند ہوگیا…… لیکن بھٹو صاحب دیر تک خود کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہے کہ ان کا تختہ ضیاء الحق نے پلٹ دیا ہے۔ جب کہ اُس وقت اُن کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ بات صرف تختہ الٹنے کی نہیں، بل کہ آیندہ آنے والے وقت میں اُن کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔
یہ بات یاد رہے کہ جانے والے آرمی چیف ٹکا خان نے ضیاء الحق کے تقرر کی سفارش نہیں کی تھی، بل کہ اختلاف کیا تھا اور ضیاء الحق اُس وقت نمبر سات تھا…… لیکن کچھ واقعات کی وجہ سے بھٹو جیسے ذہین شخص کو یہ وہم ہوگیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو، ضیا کی وفاداری پختہ ہے۔
٭ تیسرا واقعہ:۔ جب جنرل جہانگیر کرامت سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ پارلیمانی قوت رکھنے والے وزیرِ اعظم جناب میاں محمد نواز شریف نے استعفا لیا، تو ان کی نظرِ کرم نمبر چار والے جنرل پرویز مشرف پر پڑی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اُس وقت میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی کہ جنرل مشرف ’’مہاجر خاندان‘‘ کا ہے کہ جس کا نہ تو کوئی خاندانی اثر و رسوخ ہے اور نہ کوئی خاص سیاسی رشتہ۔ اس وجہ سے یہ دب کر رہے گا…… لیکن پھر کیا ہوا؟ کارگل کے بعد وزیرِ اعظم تندی والا ضلع فیصل آباد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے کہ اُن کے کانوں میں سرگوشی ہوئی۔ اُنھوں نے جلدی سے تقریر کو سمیٹا۔ فوراً ہیلی کاپٹر طلب کیا اور یک دم اسلام آباد پہنچ گئے۔ پہنچتے ہی اُنھوں نے آرمی چیف، جو تب سری لنکا کے دورے پر تھے، کو برخاست کیا۔ نئے چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کا تقرر کیا۔ بازار سے منگوا کر اُن کو بلے لگائے گئے اور ریڈیو اور ٹیلی وِژن پر نئے چیف کا اعلان کر دیا گیا…… مگر وزیرِ اعظم صاحب جیسے ہی اس مقدس کام سے فارغ ہوئے، تو جنرل محمود اور جنرل عزیز، وزیرِ اعظم ہاؤس مع معقول فوجی گارڈ کے داخل ہوئے اور ایک کاغذ وزیرِ اعظم کے سامنے رکھ دیا، جو اُن کا استعفا اور اسمبلیاں توڑنے کا صدر کو مشورہ تھا، لیکن میاں صاحب نے صاف انکار کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ چند گھنٹوں کے اندر ہی وزیرِ اعظم صاحب اڈیالہ منتقل ہوچکے تھے۔ ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات بند ہوچکی تھیں۔ کچھ گھنٹوں کے بعد جنرل مشرف کی آواز عوام کو سنائی دی: ’’میرے عظیم ہم وطنو……!‘‘
اور تب میاں صاحب کو معلوم ہوا کہ مَیں نے جس کو نمبر چار سے اُٹھا کر چیف بنایا، وہ اَب چیف اگزیکٹیو ہے اور وہ ہائی جیکر کرپٹ ملزم۔ ساری دو تہائی سے زیادہ کی اسمبلی بس غبارہ ثابت ہوئی۔ باقی کم یا زیادہ تقریباً یہی رویہ محترم عمران خان کا رہا، کبھی فیض حمید کو نیا آرمی چیف بنانے کی منصوبہ بندی اورکبھی جنرل قمر باجوہ کو تاحیات اکسٹینشن کی آفر دی۔
سو یہ تین مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں ہمیشہ یہ سوچ رہی کہ وہ فوج کے سربراہ اپنے وفاداروں میں سے لے کر آئیں۔ کیوں کہ ان کے خیال میں اصل طاقت آرمی چیف کے پاس ہوتی ہے۔ اس طاقت کا استعمال وہ اپنے سیاسی مفادات میں کرسکتے ہیں۔ حالاں کہ ایسا منطق کی بنیاد پر ممکن ہی نہیں۔
بے شک آرمی چیف کے پاس بہت طاقت ہوتی ہے، لیکن اس طاقت کے پیچھے کوئی ’’روبوٹ‘‘ نہیں ہوتے، بل کہ لاکھوں کی تعداد میں فوج کے ارکان ہوتے ہیں۔ اب آرمی چیف کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کورکمانڈروں کی رائے کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ سو فوج کا اپنا ایک مائنڈ سیٹ ہوتا ہے اور سیاست دانوں کے اپنے تقاضے۔ یہ دونوں آپس میں ایک صفحہ پر ہو ہی نہیں سکتے۔ سو اس کا حل کیا ہے؟
اس کا واحد حل جو آگاہ انسانی تاریخ اور دانش نے نکالا، وہ ہے سول بالا دستی…… یعنی تمام فیصلے صرف سول انتظامیہ کرے اور اس پر چیک صرف پارلیمنٹ اور عوام کا ہو۔ کسی حد تک عدلیہ اور میڈیا کا بھی چیک ہو۔ فوج کو بہ طور محکمہ ہر صورت منتخب عوامی حکومت کی تابع داری کرنی چاہیے…… لیکن یہ ہوگا کیسے؟
آپ میری بات لکھ کے لے لیں۔ یہ نہ تو وزیرِ اعظم کے فوجی سربراہوں کی چاپلوسیوں سے ہوگی، نہ مدتِ ملازمت اور ایکسٹنشن دے کر ہو گی۔
ایک دوسرا طریقہ بعض اوقات اپنایا جاتا ہے کہ جس کی ایک مثال ہم نے محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت میں دیکھی، یا کسی حد تک آصف زرداری کی گذشتہ حکومت میں کہ عقل مندی اور چالاکی سے فوجی ذمے داران کو محدود کر دیا جائے، لیکن یہ دونوں حربے ناکام ہوگئے۔ کیوں کہ جب آپ چاپلوسی کرتے ہیں، تو آپ بلاواسطہ یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ مائی باپ اصل حاکم آپ ہی ہیں۔ پھر اصل حاکم کی مرضی، وہ جب محسوس کرے اپنا منیجر تبدیل کرلے۔ جب آپ ہوش یاری سے طاقت کے توازن کو بدل کر اپنے حق میں کرنا چاہتے ہیں، تو پھر یہ ہوش یاری دوسری طرف سے بھی ہوتی ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ جب دو چالاک شیر لڑتے ہیں، تو جیتتا وہی ہے کہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ آپ آج بھی فطرت سے وابستہ چینل دیکھیں کہ جب دو شیر لڑتے ہیں، تو جیت اُسی کی ہوتی ہے کہ جس کے پاس طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ فطرت کا قانون بھی یہی ہے اور منطق کا نتیجہ بھی۔ کیوں کہ جب آپ چالاکی سے اس طاقت کو ساتھ ملاتے ہیں کہ جو بہ ذاتِ خود آپ سے زیادہ طاقت ور ہے، تو پھر وہ آپ کا تحفظ کیوں کرے گی، خود مطلقاً طاقت کا حصول کیوں نہ کرے گی؟
یہاں مجھے راؤ رشید مرحوم کی ایک بات یاد آئی کہ جب اُن کو اصغر خان نے کہا کہ مارشل آنے دو۔ ضیا الیکشن کروا کر مجھے جتوائے گا، تو راؤ رشید نے کہا، جناب! ایک بات پر غور کرنا۔ آخر ضیاء الحق بھٹو جیسے مقبول اور محسن کو ہٹا کر آپ کو حکومت کیوں دے گا؟ پھر وہ خود ہی حاکم بنے گا اور وہی ہوا۔
ہم بہت دکھ سے یہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان تیسری سوچ کو نہیں اپناتے۔ تیسری طاقت پر غور نہیں کرتے اور یہ طاقت کیا ہے؟ کیوں کہ آپ کی سیاسی طاقت یا انتظامی طاقت جی ایچ کیو کے آگے ریت کی دیوار بھی نہیں۔ آپ کو تیسری طاقت کی ضروت ہے اور وہ طاقت کیا ہے؟ وہ طاقت صرف اخلاقی طاقت ہے…… مکمل اخلاقی طاقت۔ اس جدید دور میں ہم نے اس طاقت کا عملی مظاہرہ ترکی میں دیکھا۔ ترکی میں فوج کی طاقت پاکستان سے بہت زیادہ تھی، بل کہ انھوں نے تو باقاعدہ آئین میں یہ لکھوالیا تھا کہ فوج انتظامی معاملات میں سٹیک ہولڈر ہوگی۔ لیکن کیا ہوا…… اردگان کی جماعت نے خود کو اخلاقی قوت سے مضبوط کیا۔ فوج کے ساتھ نہ چاپلوسی اور من پسند عہدوں پر تقرر سے خود کو محفوظ خیال کیا اور نہ چالاکی کا استعمال کیا۔ یہ اخلاقی طاقت آپ کو جذباتی تقریریں، عمرے کرنے یا سیرت کانفرنسوں میں شرکت سے حاصل نہیں ہوتی، بل کہ یہ طاقت آپ کو ملتی ہے عوام کو ریلیف دینے سے، ملک کے اندر شخصی آزادیوں کا تحفظ کرنے سے، مہنگائی اور افراطِ زر سے عوام کو دور کرنے سے، ترقیاتی کام کرنے سے، ملک کا وقار دنیا میں باعزت بنانے سے، سول اداروں کو مضبوط کرنے سے۔ آپ جب تک یہ نہیں کرتے، بے شک آپ مرضی کا آرمی چیف لگا دیں۔ اس کی وفاداری پر یقین کرلیں، لیکن آپ کے لیے اپنی کرسی کا بچاو ممکن نہیں ہوتا۔ آپ مرضی کا چیف جسٹس یا الیکشن کمیشنرلگوا لیں، کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس ساری حکمت عملی کے پیچھے آپ کی نیت کا فتور ہوتا ہے اور آپ کی اخلاقی طاقت کم زور ہوتی ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر آپ رحمتِ خداوندی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے سیاست دانوں کو ایک عہد کرنا ہوگا کہ وہ اخلاقی قوت کی بنیاد پر سول بالا دستی کو یقینی بنائیں گے۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور عوام کی زندگی کو سہل بنائیں گے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو پھر نہ کسی آرمی چیف کی ہمت ہوگی اور نہ کسی چیف جسٹس کی۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے اور آرمی کو سیاست سے باہر کرنے کا یہی ایک واحد صحیح اور آزمودہ طریقہ ہے۔
اگر آپ کو یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں، تو پھر اسی طرح قتل بھی ہوں، پھانسی بھی لگو، کوڑے، قید و بند اور جَلاوطنی بھی برداشت کرو، بدنامیاں بھی اپنے سر لو اور اس سرکل کو اسی طرح چلاتے رہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔