غزل اور دورِ جدید

Blogger Saira Rubab
 تحریر: سائرہ رُباب
غزل برصغیر کی ایک دل کش اور روح انگیز تخلیق ہے، جو اس خطے کی فطری خوب صورتی اور پیچیدہ جذبات کی گواہ ہے۔ 
غزل صرف شاعری نہیں، بل کہ ایک زبان ہے جو محبت کی لطافتوں، جدائی کی تلخیوں اور دل کی گہری شکایات کو اپنی نرم آواز میں سناتی ہے۔ جیسے قوالی کی دُھن میں روح کی گہرائیوں تک اُتر جانے کی طاقت ہوتی ہے، ویسے ہی غزل بھی اس خطے کے دلوں کی دھڑکن بن کر ہر لفظ میں محبت کی اَن کہی داستانوں اور دل کی خواہشات کو زندہ کرتی ہے۔
یہ غزل صرف شخصی تجربات کا بیان نہیں، بل کہ برصغیر کی تاریخ، ثقافت اور روح کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی لوری میں اس سرزمین کی مٹی کی خوش بُو، اس کے آسمان کی رنگینی اور یہاں کی ہوا کی لطافتیں چھپی ہوتی ہیں۔ 
جب غزل سنو، تو تم محسوس کرتے ہو کہ یہ صرف الفاظ نہیں، بل کہ ایک پورا عہد، ایک پورا ماحول تمھارے سامنے کھل کر آجاتا ہے۔ ہر مصرعے میں اس خطے کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے، جیسے کہ غزل دراصل برصغیر کے جذبات اور تخیل کا حقیقی آئینہ ہو، جس میں محبت، غم اور خوشی کا ایک خوب صورت سنگیت سمایا ہوا ہو۔
2000ء کے اوائل میں غزل کا ایک خوب صورت ٹرینڈ آیا تھا، جس میں غزل کو مختلف موسیقی کے اصناف کے ساتھ فیوژن کیا گیا۔ اس ’’پاپ غزل‘‘ کے رجحان نے نئی جان ڈالی جیسے احمد جہانزیب کی ’’آپ کی یاد‘‘، ’’اک بار کہو‘‘، ’’کہو اِک دن‘‘، فیوژن کی ’’آنکھوں کا ساگر‘‘، ’’نیند نہ آئے‘‘، نجم شیراز کی ’’اُن سے نین ملا کر دیکھو‘‘ اور علی شیر کی ’’شام کے سرمئی اندھیروں میں‘‘ ، فراز کی ’’تنہا تنہا راتوں میں‘‘، سجاد علی کی ’’ہر ظلم‘‘ ، کسی سنگر کی ’’کوئی دیوانہ کہتا ہے‘‘ اور ایک لمبی فہرست……! 
ان گانوں نے غزل کی کلاسیکی خوب صورتی کو جدید موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا، جس نے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ 
افسوس کہ وقت کے ساتھ یہ رجحان زوال کا شکار ہوکر معدوم ہوتا چلا گیا۔ کیوں کہ موسیقی کی پسند اور ذائقے بدلنے لگے۔ موسیقی سے جیسے روح رُخصت ہوگئی ہو، تخلیقیت اور اصلیت ختم ہوتی چلی گئی اور ہر چیز یک سانیت کا شکار ہوگئی۔ 
نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ غزل کے قدیم رنگ کو جدید تخلیقی انداز میں ڈھالے ، تاکہ یہ صنفِ شاعری نہ صرف اپنی اصل روح کو برقرار رکھے، بل کہ موجودہ دور کے جذبات و خیالات کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر ایک نیا جلوہ پیدا کرے ۔ 
پیور پاپ کلچر کی جگہ غزل کو نئی زندگی دی جا سکتی ہے، تاکہ یہ نہ صرف ماضی کا آئینہ بنے، بل کہ حال کی زبان بن کر دلوں تک پہنچے۔ غزل میں جدت اور آواز کا امتزاج اس کو ایک بار پھر زندہ کرسکتا ہے، اور نوجوانوں کو اس کی حقیقی جاذبیت سے روشناس کرواسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے