چڑھتے سورج کی سرزمین، دید و شنید (ساتواں حصہ)

میں دو دن ’’کیکو‘‘ کے سپر مارٹ نہیں گیا تھا، تاہم آخری دفعہ اس کے چہرے پر پریشانی اور تھکن کے آثار اب بھی میرے ذہن پر نقش تھے۔ اس لئے میں شام کو آئی ہاؤس سے نکلا اور سپر مارٹ کی جانب رُخ کیا۔ آج موسم صاف تھا اور روپونگی اور آذابوجوبان کے درمیانی راستے پر پیدل چلنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ سپر مارٹ پہنچا، تو ’’کیکو‘‘ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے متلاشی نظروں سے سپر مارٹ کے ہر کونے میں نظر دوڑائی، پر وہ کہیں نظر نہ آئی۔ نتیجتاً میری پریشانی بڑھ گئی۔ سٹور کے اندر باقی تمام کارندے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے مگر دلکش ’’کیکو‘‘ کے بنا سب کچھ سنسان دکھائی دے رہا تھا۔ کیکو کی غیر موجودگی سے میرا دل مختلف قسم کے وسوسوں سے بھر گیا۔ کہیں وہ بیمار تو نہیں پڑ گئی۔ خیر، میں جب نکلنے لگا، تو سٹور کے ایک کونے میں دروازہ کھلتے دیکھا جہاں سامان سے لدی ہوئی تین پہیوں والی گاڑی نکل رہی تھی اور اس کے پیچھے پری رُخ ’’کیکو‘‘ گاڑی دکھیلتے ہوئی نمودار ہوئی، اور مجھے دیکھتے ہی مسکرائی۔ اس کی مہین مسکراہٹ نے گویا میرے تنِ مردہ میں جان ڈال دی۔ وہ ایک بڑی الماری کے قریب رُکی اور گاڑی سے سامان اتار کر سلیقہ مندی سے رکھنے لگی۔ میں بھی فوراً اس کے قریب گیا۔’’آپ دو دن سے نظر نہیں آرہے تھے۔ کہاں تھے؟ مجھے بہت یاد آرہے تھے۔ـ‘‘ کیکو نے ایک بڑا کارٹن الماری میں رکھتے ہوئے کہا۔ اس کے منھ سے اس قسم کا جملہ سن کر میرے اندر برقی رو سی دوڑ گئی مگر خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا: ’’اب آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟‘‘ میں نے بھی سوال کیا جس پر وہ زور زور سے ہنسی اور اس کا چہرہ تازہ گلاب کی طرح کھلتا دکھائی دیا۔ جواباً کہنے لگی کہ ’’پاگل، یہ ہمارا روٹین ہے۔ میں جب روزانہ دس گھنٹے مسلسل کام کرتی ہوں، تو اکثر ایسا محسوس کرتی ہوں۔‘‘ اس نے مشین کی طرح کام جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’یہاں روزانہ سیکڑوں گاہک آتے ہیں، پر کسی کے پاس اضافی ایک لفظ کا وقت نہیں ہوتا، پر آپ عجیب ہیں۔ یہاں آتے ہیں، ضرورت کی چیزیں بھی خریدتے ہیں اور مجھ سے حال احوال بھی پوچھتے ہیں۔ پہلے پہل آپ کا یہ انداز مجھے بڑا عجیب لگا تھا، مگر اب محسوس کرنے لگی ہوں۔ میں نے دو دن آپ کا انتظار کیا۔‘‘ کیکو نے زمین پر بیٹھ کر الماری کے نچلے حصے میں سامان کو ترتیب سے رکھتے ہوئے ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ ڈالی۔ نازک اندام کیکو کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا کہ جاپانیوں کی عورتیں، مردوں سے زیادہ محنتی اور ایماندار ہیں۔ پورا دن چاہے وہ سپر سٹور ہو یا کوئی ریسٹورنٹ جاپانی خواتین مسلسل کھڑے ہوکر کام کرتی ہیں۔ وہ مردوں کی طرح بھاری سامان بھی اٹھاتی ہیں، گاہکوں کو مسکراتے ہوئے خوش آمدید بھی کہتی ہیں اور کام میں کوتاہی بھی نہیں کیا کرتیں۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ ’’کیکو‘‘ کی طرح خوبصورت اور نازک لڑکیا ں اگر پاکستان میں ہوتیں، تو کبھی اس طرح کی مزدوری نہ کرتیں۔ سامان اور بوجھ اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ ہماری خواتین تو جوانی میں بھی درجن بیماریوں کے ساتھ جیتی ہیں۔ ان بیچاروں کے لئے دس گھنٹے مسلسل کھڑے ہوکر کام کرنا تو تقریباً ناممکن سی بات ہے۔ اگر خدانخواستہ ایک دن ان کو مسلسل دس گھنٹے کھڑے ہوکر کام کرنا پڑا، تو اگلے ہی دن بستر پر لیٹ کر جسم کے ہر حصے میں درد کا رونا روئیں گی۔ میں نے ’’کیکو‘‘ سے اجازت لیتے ہوئے کیک کا ایک پیکٹ اور جو س کا ڈبّا اٹھایا۔ کاؤنٹر پر پیسے دئیے اور آئی ہاؤ س کی طرف چلنے لگا۔ کیکو الماری کے پیچھے سے کام کرتے ہوئی مجھے یوں گھور رہی تھی جیسا کہ وہ میرے جانے پر مغموم ہو اور جب میں نے باہر نکلتے سمے پیچھے دیکھا، تو وہ بے اختیار مسکرائی۔

ٹوکیو شہر کا شام کا ایک دلفریب منظر۔ (Photo: cheapflightslab.com)

اگلے دن ہمارے ایشیا کے مختلف مسائل اور وسائل پر سیمینار کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا۔ کیوٹو یونیورسٹی کے پروفیسر’’ ماریو لوپاز‘‘ نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے مسائل کو اجا گر کرنے کے لئے ویڈیو ڈاکومینٹری کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور مختلف ویڈیوز جو کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے متعلقہ نوجوانوں نے بنائی تھیں، سیمینار میں دکھائیں۔انہوں نے کہا کہ وہ مختلف ممالک کے جوانوں کو اپنے ممالک کے سماجی، ثقافتی، معاشی حالات پر ڈاکومینٹریز بنانے کا ہدف دیتے ہیں اور پھر یہی ڈاکومینٹریز جاپان میں طلبہ اور دوسرے لوگوں کو دکھاتے ہیں، تاکہ یہاں کے لوگوں کوایشیا کے دوسرے ممالک کے بارے میں علم و آگہی مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیوز کے ذریعے لوگ باآسانی سمجھتے اور سیکھتے ہیں۔ کیوں کہ کسی بھی ملک کے زیادہ تر لوگ دوسرے ممالک نہیں جا سکتے، اسی لئے ویڈیوز ہی سیکھنے اور سمجھنے کا بہترین نعم البدل ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ ویڈیوز کا یہ سلسلہ صرف جنوبی مشرقی ایشیا تک ہی کیو ں محدود ہے، کیوں نہ اس میں جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل کئے جائیں؟ جواباً انہوں نے کہا کہ چوں کہ یہ ایک پراجیکٹ ہے اور فنڈز کی کمی ہے، اسلئے فی الحال دوسرے ممالک تک یہ سلسلہ بڑھانا ممکن نہیں جب کہ مستقبل میں اس پر غور کیا جاسکتاہے۔

 ایشیا کے مختلف مسائل اور وسائل پر سیمینار کا ایک منظر۔ (فوٹو: لکھاری)

اس کے بعد میرے لئے سب سے اہم سیمینار جنوبی ایشیا کے حوالہ سے تھا جس کی وجہ اس خطہ میں پاکستان کا ہونا تھا۔ سیمینار کے لئے ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر’’تنابے اکیو‘‘ کو بلایا گیا تھا، جنہوں نے کہا کہ ایشیا مختلف امور یعنی ثقافتی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر معاشی سیکٹر میں آگے کی جانب گامزن ہے اور کہا کہ پہلی بار ایشیا معاشی زون بن رہا ہے جہاں چین، ہندوستان، جاپان اور چند دوسرے ممالک معاشی لحاظ سے تیز ی سے ترقی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اب ایشیا ایک صارف نہیں بلکہ پیدا کرنے والا خطہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جہاں دنیا کے دوسرے ممالک سے زیادہ وسائل ہیں اور یہاں کے لوگ اور ان کی ثقافت متنوع اور ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں سنجیدگی سے اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر دنیا کے دوسرے خطوں سے سبقت لینی چاہئے۔

مجھے ایک بات بڑی عجیب لگی اور وہ یہ تھی کہ پروفیسر صاحب صرف اور صرف جنوبی ایشیا میں ہندوستان پر ہی بحث کر رہے تھے۔ جب کہ باقی مانندہ ممالک یعنی پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال اور سری لنکا کو یکسر نظر انداز کر رہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ یہاں دنیا سے آئے ہوئے ہر میدان کے دانشور اور عالم صرف اور صرف ہندوستان کے بارے میں بات کرتے تھے اور اہمیت دیتے تھے جب کہ پاکستان کا ذکر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارا جھکاؤ چین کی طرف بہت زیاد ہ ہے اور اس بے جا جھکاؤ نے ہمیں ایشیا میں دوسرے ممالک سے اجنبی کرکے رکھ دیا ہے۔ یہاں کسی بھی محفل میں دنیا سے آئے ہوئے ماہرین پاکستان کا نام تب ہی لیتے ہیں جب دہشت گردی یا انتہاپسندی کی مثال دینی ہو۔ میں ہر ملک کے دانشور کو دنیا کے کسی کونے یا اپنے ملک کے کسی واقعہ کی نشاندہی کرتے سنتا اور اس کا تعلق تخریب سے ہوتا، توکہتے کہ جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے یا یہ کہتے کہ پاکستان کی خطرناک دہشت گردی کی طرح نہیں۔ پوری دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ٹھپا ہم پر لگ چکا ہے جس کے پیچھے وجوہات اور عوامل ہیں، ورنہ ویسے ہی کوئی بدنام نہیں ہوتا۔ مجھے یہ باتیں سن کر ندامت ہوتی کہ کسی زمانے میں پاکستان کو پورے ایشیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کیوں کہ پاکستان ایشیا کے تمام ممالک سے بہتر انداز میں ترقی کررہا تھا۔ اب وقت یہ آگیا ہے کہ ہمیں کوئی ملک یا ریاست سمجھتا ہی نہیں۔ شاید پچھلی کئی دہائیوں سے ہماری ناکام خارجہ اور داخلی پالیسیوں نے ہمیں پوری دنیا میں تو نتہا کردیا ہے بلکہ اب تو ایشیا میں بھی ہماری اہمیت نہیں رہی۔ (جاری ہے)

……………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔