علم کی شمع بجھنے نہ پائے

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
یہ دعا روزانہ بچے سکول میں اسمبلی کے دوران میں پڑھتے ہیں لیکن یہاں علم کے ساتھ ساتھ زندگی کی شمع کسی بھی لمحے بجھ سکتی ہے۔ دیواروں پر نظر آتی ہوئی دراڑیں، خستہ حال اور بوسیدہ عمارت اور موت کے منتظر ان طلبہ اور سکول کا تعلق خیبر پختون خوا کے ضلع سوات سے ہے۔ تحصیل کبل کے علاقہ نیک پی خیل جاونڈ میں واقع گورنمنٹ ہائی سکول سویگلی کی عمارت گویا موت کا کنواں ہے۔ یہ سکول تین چار سو طلبہ اور بیس سے پچیس اساتذہ و عملہ پر مشتمل ہے۔یہاں کا ایم این اے مراد سعید اور ایم پی اے ڈاکٹر امجد ہے۔ یہ حلقہ پی کے 82 سوات 4 کہلاتا ہے۔

ایم این اے مراد سعید اور ایم پی اے ڈاکٹر امجد

گورنمنٹ ہائی سکول سویگلی ضلع کی مرکزی شاہراہ کے پی ہائی وے (سابقہ شموزی روڈ) پر جاونڈ کے مقام پر آباد ہے۔ اس سکول میں گاؤں ڈڈھرہ، سویگلی، زیارت، جاونڈ، گاڑی، شریف آباد اور زوڑہ سمیت مختلف گاوؤں کے بچے علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں۔ سوات میں مختلف اوقات میں جہاں ایک طرف زلزلوں اور توپوں کی گھن گرج نے اس پرانی عمارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، تو دوسری طرف 8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلہ نے بھی سکول کی عمارت کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔ رہی سہی کسر 26 اکتوبر 2015ء کے زلزلہ نے پورا کی اور سکول کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاکر اس کی در و دیوار کو ہلاکر رکھ دیا۔

گورنمنٹ ہائی سکول سویگلی کا بیرونی منظر (فوٹو: لکھاری)

اب سکول اس قابل ہی نہیں رہا ہے کہ اس میں بچوں کی پڑھائی مزید جاری رکھی جاسکے۔ سکول کے بچے روز موت کے سائے میں بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے جب زندہ سلامت گھروں کو لوٹتے ہیں، تو ان کے چہروں پر عجیب سی خوشی، سکون اور طمانیت کا احساس واضح نظر آتا ہے۔ جب کہ سکول میں درس و تدریس کے موقع پر ان کے سر پر موت کا خطرہ منڈلانے کی وجہ سے ان کے چہرے بجھے بجھے سے رہتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں ظاہری سی بات ہے، ان بچوں کی پڑھائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین اور اساتذہ بھی روز ذہنی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ یوں والدین روز دعا کیلئے اپنے ہاتھ بلند کرکے اللہ سے ان کی حفاظت کیلئے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ان پھول وقت سے پہلے مرجھا نہ جائیں اور سکول میں ان کی موجودگی کے دوران میں کہیں کوئی زلزلہ نہ آجائے۔ اساتذہ نے مختلف اوقات میں محکمہ تعلیم اور ممبران صاحبان اور دوسرے علاقائی عمایدین و سیاسی معززین کو اس مسئلے کی طرف متوجہ بھی کیا مگر کوئی خاطرخواہ شنوائی نہیں ہوئی۔ چونکہ پرائمری سیکشن بالکل قابل استعمال نہیں رہا تھا، اس لئے پرائمری سیکشن کے لڑکوں کو لڑکیوں کے سکول میں سیکنڈ شفٹ میں پڑھایا جانے لگا۔ یوں اساتذہ اور بچے دونوں دونی اذیت سہنے پر مجبور ہوئے۔ یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ علاقے کا شاید یہ واحد سکول ہے جہاں تمام سیاسی پارٹیاں وقتاً فوقتاً اپنے سیاسی جلسے جلوسوں کا اہتمام اسی سکول کے اندر کرتے ہیں جس پر پابندی کی استدعا کی جاتی ہے۔ کیوں کہ سیاسی اکھاڑا ہونے کی وجہ سے اس سکول کی تعمیر تعطل کا شکار ہوگئی ہے۔ یہاں اسی بوسیدہ عمارت کا دورہ ضلعی ناظم محمد علی شاہ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور ن لیگ کے امیر مقام بھی کرچکے ہیں اور سکول کی حالت زار کا علم ان سب کو بخوبی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے وقار خان کو یہاں کے مقامی اے این پی کے کسان کونسلر رحیم باچا نے بطورِ خاص بلایا کہ وہ اس سکول کا مسئلہ حل کرنے میں کوئی مدد کریں۔ کیوں کہ سکول کی تعمیر میں تاخیر ہونے کی وجہ سے سیکڑوں بچوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق تھا۔ انہوں نے ایک جرگہ اور پروگرام کا انعقاد کیا جس میں اساتذہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر اس وقت سکول کے سائنس ماسٹر اقبال نے بھی شرکت کی، جو بعد میں ان کیلئے گلے کی ہڈی ثابت ہوئی اور انکا تبادلہ کہیں اور کیا گیا۔ میری معلومات کے مطابق سائنس ماسٹر اقبال ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں مگر بچوں کی خاطر وہ وقار کے پروگرام میں شامل ہوئے تھے۔ وقار خان اور جرگہ میں موجود علاقہ کے دوسرے معززین نے سکول کے قریب ایک گھر کرایہ پر لینے کی تجویز پیش کردی اور گھر کے مالک کو ایک لاکھ روپے سالانہ پر راضی کیا گیا جس میں وقار خان نے اپنی جیب سے تیس ہزار روپے دئیے جبکہ باقی ستر ہزار روپے جرگے میں موجود علاقے کے دوسرے معززین نے میں سے کسی نے پانچ ہزار تو کسی نے دس ہزار روپے دے کر ایک سال کا کرایہ اسی وقت اپنی مدد آپ کے تحت جمع کیا اور مالک مکان نے گھر سکول کے حوالے کیا۔

سکول کا اندرونی منظر جہاں ایک لمحہ بھی بیٹھنا یا کھڑا ہونا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے (فوٹو: لکھاری)

معزز ایم پی اے ڈاکٹر امجد کو جب اس جرگے اور پروگرام کا علم ہوا، تو موصوف نے ناراضی کا اظہار کیا۔ حالاں کہ یہ شکایت انہیں کئی بار کی جاچکی تھی اور سکول کی مخدوش عمارت میں بچوں کو پڑھانے سے بھی محکمہ نے منع کیا ہوا تھا۔ ایسی صورتحال میں ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق مسئلے کے حل کو تلاش کرنا ضروری تھا اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے زیادہ اہمیت یہاں بچوں کی زندگی کی تھی۔ ڈاکٹر امجد نے اقبال سائنس ماسٹر سے اس سلسلے میں وضاحت طلب کی، تو اس نے کہا کہ علاقے کے عمائدین اور لوگوں نے جرگہ بلایا ہوا تھا اور یہ کہ وہ کسی سیاست میں ملوث نہیں ہے۔ خیر، سائنس ماسٹر صاحب کا تو تبادلہ کروا دیا گیا جن کا بچوں کے بہترین تعلیمی معیار برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار رہا ہے جبکہ کچھ اساتذہ اب بھی زیرعتاب ہیں اور انہیں کسی بھی وقت تبادلوں کے پروانے مل سکتے ہیں جس کی وجہ سے محترم اساتذۂ کرام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ آج کل مذکورہ اساتذہ ذہنی کوفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سکول کی تعلیمی اور کھیل کی سرگرمیوں میں ان محترم اساتذہ کی محنت اور قابلیت شامل ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ انہیں در بہ در نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر امجد کا فائل فوٹو۔

اسی اثنا میں جب دوسرے سال کا کرایہ مالک مکان کو نہیں ملا، تو اس نے گھر خالی کرنے پر اصرار شروع کیا۔ جس پر سکول کے بچوں نے احتجاج کی دھمکی دے ڈالی اور بات ڈسٹرک کمشنر سوات تک پہنچ گئی۔ ڈسٹرکٹ کمشنر سوات نے اسسٹنٹ کمشنر کبل کو فوری طور پر مسئلہ حل کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اسسٹنٹ کمشنر کبل نے محکمہ تعلیم کے افسران کو بلاکر اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مانگی، تب جاکر محکمہ تعلیم نے کرایہ ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ میں یہاں تمام سیاسی فریقین اور علاقے کے سیاسی و غیر سیاسی مشران سے گزارش کرتا ہوں کہ گورنمنٹ ہائی سکول سویگلی کی تعمیر کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ چار سالہ دور حکومت میں اس سکول کی تعمیر بہت پہلے مکمل ہوجانی چاہیے تھی، مگر نہیں ہوئی۔ سیاست اپنی جگہ لیکن خدارا، اس سکول کی تعمیر میں رکاوٹ مت بنیں۔ سیاستدانوں کا دل ہمیشہ بڑا ہونا چاہئے۔ کیونکہ عوام ہی ان سیاستدانوں کو ایوانوں تک پہنچا دیتے ہیں اور آخر میں پھر انہیں عوام کے پاس ہی جانا پڑتا ہے۔ آپس کی سیاسی چپقلش و اختلافات کو دوسروں کی زندگیوں کیلئے اذیت اور خطرہ نہ بنائیں۔ طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کو مثبت استعمال کیجئے۔ کسی کیلئے باعث عذاب نہ بنئے۔ اس طرح کی انتقامی کار روائیاں خود سیاستدانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایک مخالف پیدا کرنے کا مطلب ہے ایک ہزار مخالفین پیدا کرنا اور کسی ایک مخالف کو سینے سے لگاکر داد رسی کرنا اور ان کے دل جیت لینا ہی سیاسی بصیرت و شعور رکھنے والوں کا شیوہ ہونا چاہئے۔ عوام وہ ہیں جو سیاست دانوں کو کامیابیوں کی بلندی تک پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

ایک غیر حکومتی تنظیم ’’الف اعلان‘‘ کے حالیہ سروے کے مطابق تعلیمی لحاظ سے ڈاکٹر امجد کا حلقہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں ٹاپ پر ہے۔ اس طرح گورنمنٹ ہائی سکول سویگلی کے طلبہ پورے خیبر پختونخواہ کے سرکاری سکولوں کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں ٹاپ پر ہیں۔ یہاں کے طلبہ پورے صوبہ خیبر پختون خواہ میں ہر قسم کے کھیل میں سب سے آگے ہیں۔ دوڑ کے مقابلے میں سویگلی سکول کے طلبہ کو ابھی تک کوئی شکست نہیں دے سکا ہے، لیکن پھر بھی یہاں کے طلبہ سکول کی عمارت تعمیر ہونے کے منتظر ہیں۔ اسکول کے پرائمری سیکشن کے صرف ڈی پی سی تک ہی کا نامکمل کام ہوا ہے جسے ایک غیرسرکاری تنظیم ’’پارسا‘‘کا تعاون حاصل تھا اور باقی کام مکمل کرنے سے ٹھیکیدار نے فنڈ نہ ملنے کی وجہ سے انکار کیا ہے۔ وہ حصہ بھی ابھی تک ادھورا پڑا ہوا ہے۔ حالاں کہ ڈاکٹر امجد نے 17 ملین کی خطیرلاگت سے تعمیر ہونے کے سنگ بنیاد کا بورڈ بھی نصب کیا ہوا ہے۔جب یو ایس ایڈ سکول کے ہائی سیکشن کی تعمیر کیلئے تیار ہے، تو مزید تاخیر اور دیر کس بات کی ہے اور کیوں ہے ؟ یہ اعلیٰ حکام جانتے ہیں کہ بس ایک دستخط کی دیر ہے۔

ایک غیر حکومتی تنظیم ’’الف اعلان‘‘ کے حالیہ سروے کے مطابق تعلیمی لحاظ سے ڈاکٹر امجد کا حلقہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں ٹاپ پر ہے۔ (Photo: tribune.com.pk)

اس تحریر کے ذریعے وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک اور صوبائی وزیرتعلیم محمد عاطف سے گورنمنٹ ہائی سکول سویگلی کی جلد از جلد تعمیر کیلئے بلا روک ٹوک اقدامات کی اپیل ہے۔
چوں کہ تعلیمی ایمرجنسی پی ٹی آئی کا انتخابی نعرہ رہا ہے، لہٰذا اس نعرے کی لاج رکھتے ہوئے اور کسی بھی وقت حادثاتی ایمرجنسی سے بچنے کیلئے حکومت ختم ہونے سے پہلے پہلے گورنمنٹ ہائ سکول سویگلی کی تعمیر کو یقینی بناکر یہاں کے عوام اور طلبہ کے دلوں کو جیتنے کا موقع ضائع نہ کیا جائے اور سکول کی عمارت کی تعمیر کو جلد از جلد یقینی بنا دیا جائے۔

………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔