گذشتہ کچھ عرصہ سے ایک نظم کہ جو ایک سرائیکی کے نوجوان شاعر نے لکھی تھی اور مقبول بھی ہوئی تھی، لیکن اُس کو ایک اور نوجوان نے جنید صاحب کے پروگرام میں گاکر مقبول تر کر دیا۔ اس کا پہلا شعر کچھ یوں ہے کہ
مرشد، پلیز! آج مجھے وقت دیجیے
مرشد، میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
سو اس نظم کا پہلا شعر ہی ہمارے دماغ میں تب آیا کہ جب ہم نے سوشل میڈیا پر پاکستان تحریکِ انصاف کی چیخ و پکار سنی۔ خاص کر کارکنان کی۔ چوں کہ ہمارے یہ نوجوان دوست اپنے قائد کو ’’مرشد‘‘ کہتے ہیں۔ حالاں کہ اس سے پہلے نہ کسی نے قائدِ اعظم کو یہ ٹائٹل دیا، نہ ذوالفقار علی بھٹو کو، نہ بینظیر بھٹو کو اور نہ نواز شریف کو، جب کہ یہ لوگ اپنے ادوار میں جناب عمران خان سے زیادہ مقبول تھے۔ حتی کہ خان عبدالغفار خان کہ جن کی تحریک کا نام ہی خدائی خدمت گار تھا اور مولانا مودودی جو خالصتاً مذہبی نکتہ نظر کو لے کر آئے تھے، وہ بھی اس اعزاز سے مرحوم رہے۔ کیوں کہ مرشد کی اصطلاح بنیادی طور پر مقدس مذہبی شخصیات سے وابستہ ہے، جیسے ولی اﷲ اور پیر وغیرہ۔ لیکن بہ ہرحال اب جب کہ ہمارے انصافین نے ایک کلین شیو اور عملاً مذہب سے دور ایک سابقہ کرکٹر کو یہ اعزاز دے ہی دیا ہے، تو ہم بھی آج خان صاحب کو مرشد تسلیم کرکے اُن کی خدمت میں کچھ گزارشات کریں گے۔ اور یہ گزار شات حال میں کی گئی آئینی ترامیم کے حوالے سے ہیں کہ جس پر تحریکِ انصاف کا عوامی ردِعمل نہایت ہی غلط بلکہ فتنہ انگیز ہے۔
ہماری اطلاع کے مطابق یہ سب ہنگامہ مرشد کی ہدایت و حکم پر کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت اس کا نشانہ آئینی ترامیم نہیں، بل کہ حکومت پر سیاسی دباو ڈالنا ہے، لیکن چوں کہ اس کی وجہ سے مجموعی طور پر ملک کا نقصان ہو رہا ہے، سو اس لیے ہم بھی آج یہ دکھ مرشد کو ہی بتائیں گے اور مرشد سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان معصوم بچوں کی جہالت کا ایسا فائدہ نہ اٹھائیں گے کہ جس سے ملک کا نقصان ہو۔
مرشد گذشتہ دنوں جو آئینی ترامیم ہوئی اس پر ہنگامہ برپا ہے اور خاص کر پاکستان تحریکِ انصاف کے شدید تحفظات ہیں اور غصے میں ہے۔اس مکمل پیکیج میں سب سے زیادہ متنازع ترامیم عدلیہ کے حوالے سے آپ نے بنائی ہیں، لیکن مرشد آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ ترامیم خصوصاً عدلیہ کے حوالے سے وہی ہیں، جو شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان ’’سی اُو ڈی‘‘ کے تحت ہوئی تھیں، لیکن بدقسمتی سے تب بھی چوں کہ وکلا کی جد و جہد جو ایک سیاسی جج جسٹس افتخار چوہدری کی بہ حالی کے حوالے سے تھی، کام یابی کی طرف رواں دواں تھی اور جنرل مشرف کم زور تر ہوچکا تھا، سو مسلم لیگ ن کا خیال تھا کہ اب ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے، جو یا تو افتخار چوہدری کو ختم کرے، یا پھر ان کے اختیارات پر اثر انداز ہو۔
سو 18ویں ترمیم میں تمام معاملات ’’سی اُو ڈی‘‘ کے تحت ہوئے، لیکن عدلیہ کے حوالے سے ن لیگ ڈی ٹریک کر گئی۔ بہ ہرحال اس بینظیر و نواز معاہدہ جو ’’سی اُو ڈی‘‘ کے تحت تھا، کو باقاعدہ اُس وقت کی ’’اے آر ڈی‘‘ سے منظور کروایا گیا تھا کہ جس کا حصہ تحریکِ انصاف بھی تھی اور تحریکِ انصاف نے اس کو قبول کیا تھا۔ سو اب اس پر اعتراض کیوں؟
پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ایک ماہ تک جب مولانا فضل الرحمان کا گھر سیاست کا مرکز بن چکا تھا۔ صبح بلاول بھٹو زرداری، دوپہر وزیرِ اعظم شہباز شریف اور شام کو تحریکِ انصاف کے قائدین پہنچ جاتے تھے۔ حتی کہ مسلم لیگ کے قائد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور صدرِ پاکستان محترم آصف علی زرداری بھی چائے کا کپ پینے مولانا کے گھر تشریف لائے۔ اس کے بعد تحریکِ انصاف نے مولانا کا منظور شدہ مسودہ قبول کرلیا، لیکن پھر تحریکِ انصاف نے اس کو سیاسی ایشو بنالیا۔
ویسے ہم یقین سے کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے اکثر کارکنان کو ان آئینی ترامیم کا علم ہے، نہ اُن کو ان ترامیم کی اہمیت کا احساس ہے، نہ اُن کو اس بارے جاننے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے۔ اُن کو بس ایک بیانیہ دے دیا جاتا ہے اور وہ معصوم جذباتی روحیں بغیر سوچے سمجھے لگ پڑتے ہیں سوشل میڈیا پر۔
آئیں، ذرا دیکھیں کہ یہ ترامیم ہیں کیا؟ اس کا مختصر خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو ایک خاص ماحول سے وابستہ کیا جائے۔ چیف جسٹس کے بے تحاشا اختیارات کو ایک طریقۂ کار کا پابند کیا جائے۔ کیوں کہ ہماری سیاسی قیادت کو یہ احساس ہوچلا تھا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کسی بھی سول یا سیاسی حکومت کے لیے ایک آمر بن جاتا ہے اور اس کی بڑی مثال جسٹس افتخار چوہدری ہے کہ جس نے سول حکومت کو مکمل جام کر دیا تھا۔
اب ان ترامیم کے تحت نمبر ایک سنیارٹی کا اُصول ختم کیا گیا۔ کیوں کہ پہلے چیف جسٹس حکومت بناتی تھی، پھر سجاد علی شاہ کیس میں سنیارٹی اصول طے کر دیا، لیکن یہ ثابت ہوا کہ یہ معقول نہیں۔ اب نئی آئینی ترامیم میں نیا چیف جسٹس پہلے تین سینئر ججوں میں سے ہوگا۔ اس کی تعیناتی سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گا کہ جس میں پالیمان کی کمیٹی بھی ہوگی، بار کے نمایندے بھی ہوں اور عدلیہ کے بھی۔
دوسرا نکتہ، سوموٹو کا اختیار بھی اب تین ججوں تک کر دیا گیا کہ کسی بھی مسئلہ پر اگر سوموٹو کی ضرورت ہو، تو وہ تنہا چیف جسٹس نہ کرے، بل کہ تین سینئر جج کریں۔ کیوں کہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس صاحب ٹماٹروں اور سموسوں کی قیمتوں پر نہ صرف سوموٹو لیتے رہے، بل کہ انتظامی مشنری کو جام کر کے رکھ دیتے تھے۔
تیسرا اہم ترین نکتہ آئینی عدالت کا ہے اور یہ سب سے بہتر ترمیم ہے۔ کیوں کہ ہمارا سیاسی کلچر عجیب ہے۔ آئے دن سیاسی معاملات اور انتظامی فیصلوں حتی کہ سیاسی بیانات کو بنیاد بنا کر ہمارے کچھ وکلا محض شہرت کی ہوس یا تفریحِ طبع کے لیے رِٹ لے کر عدالت پہنچ جاتے ہیں اور پھر اعلا عدلیہ ان کے لیے بڑے بڑے بنچ بنانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
جب تک یہ معملات عدالت میں رہتے ہیں، تب تک میڈیا کا شغل چلتا ہے۔ روز ججوں کے ریمارکس، وکلا کے نِکات مرکزی چینلوں کی زینت بنتے ہیں۔ رات کو ٹاک شوز کی رونق لگی رہتی ہے۔ حالاں کہ ان معاملات کا بہ راہِ راست عوامی مفادات سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔
دوسری طرف ہزاروں عام لوگوں کے کیس ملتوی ہوتے رہتے ہیں۔ وہ بے چارے ملک کے دور دراز حصوں سے اسلام آباد آکر کجھل خوار ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو ہر دفعہ ایک نئی تاریخ ملتی رہتی ہے اور ہمارے معزز جج آئینی اور سیاسی معاملات میں لگے رہتے ہیں۔
سو یہ ترمیم بہت ضروری تھی کہ آئے دن کے آئینی، بل کہ آئینی کم اور سیاسی زیادہ معاملات کا گند آئینی عدالت میں چلتا رہے اور سپریم کورٹ کے دوسرے جج تیزی سے عوامی مقدمات کو نمٹاتے رہیں۔
مَیں جانتا ہوں کہ اندرونِ خانہ تحریکِ انصاف کو بھی ان آئینی ترامیم پر کوئی اعتراض نہیں، بل کہ وہ اس سے اختلاف دو وجوہات کی بنیاد پر کرتی ہے:
ایک تو یہ سوفی صد سیاسی گیم کر رہی ہے، کیوں کہ مرشد کو معلوم ہے کہ ان کے سیاسی کارکن نہیں، بل کہ مریدین ہیں اور مریدین کو جس طرف چاہو لگا دو۔ سو یہ موقع اچھا ہے کہ اس کو سیاسی تماشا بناؤ، تاکہ اپنی مقبولیت بھی رہے اور حکومت کے لیے مسائل بھی۔
دوسری وجہ، ان کو تھوڑا بہت مسئلہ منصور علی شاہ صاحب کا بھی ہے۔ حالاں کہ ہم ذاتی طور پر جسٹس منصور علی شاہ کو بہت بہتر جج سمجھتے ہیں، لیکن تحریکِ انصاف نے اُن کو غیر ضروری طور پر متنازع بنا دیا۔ یہ ماحول بنا دیا کہ قاضی فائز عیسیٰ (ن) لیگ کا اور منصور علی شاہ ہمارا جج ہے۔ سو (ن) لیگ تو فائدہ لے گئی کہ جی، ہم نے قاضی صاحب کو فارغ کر دیا ہے۔
اس طرح مرشد اور ان کے قریبی وکلا کو معلوم تھا کہ اگر جسٹس منصور شاہ نہ بنے، تو پھر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہی بننا ہے اور جو آفریدی صاحب بنے ہیں، اُن کی شہرت بہت اچھی ہے۔ قانونی و عدالتی حلقوں میں اُن کو ایک باوقار شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بار کونسل کی اکثریت کو بھی مسئلہ نہیں۔ سو تحریکِ انصاف بھی اندر سے مطمئن ہے۔ وگرنہ جو طریقۂ کار وضع کیا گیا، اُس میں اگر تحریکِ انصاف شامل ہوتی اور سینئر ترین جج جسٹس منصور شاہ کا نام پیش کرتی، تو ہماری اطلاع کے مطابق بار کونسل کا نمایندہ اور پیپلز پارٹی جسٹس منصور شاہ کی حمایت کرتی اور حکومت بہ ہر صورت جسٹس شاہ کو ہی چیف جسٹس تعینات کرتی، لیکن یہاں تحریکِ انصاف نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی شاید ناکام کوشش کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تو گئے، اب بے شک آفرید بن جائیں…… لیکن اُن کا سیاسی موقف وہی رہے۔
اب تحریکِ انصاف جو شعیب شاہین اور حامد خان کی وجہ سے اس کو قانونی طور پر غلط کَہ رہی تھی، اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ شاید لاہور کے علاوہ تمام بار کونسلوں میں بہ شمول مرکزی بار کونسل، تحریک انصاف کی وکلا تنظیموں کو شدید مار پڑی۔ حامد خان گروپ، عاصمہ جہانگیر (مرحومہ) گروپ سے بری طرح پٹ گیا۔
بہ ہرحال ہم مکمل غیر جانب داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ اُن ترامیم کہ جو پارلیمنٹ کی مضبوطی کا مظہر سمجھی جاتی ہیں، پر کوئی اصولی موقف ہے، تو وہ کسی حد تک پیپلز پارٹی کا رہا۔ باقی مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف نے اس پر صرف سیاست کی، خاص کر تحریک انصاف نے۔
اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جناب عمران خان کے پاس سیاسی کارکن نہیں، ایک ’’کلٹ‘‘ ہے اور ان کے جذبات کو مرشد خوب ہوش یاری سے استعمال کر رہے ہیں، لیکن نتائج اس وجہ سے بہتر نہیں نکل رہے، کیوں کہ اس حکمتِ عملی میں اخلاقی قوت بالکل نہیں اور جس بھی سیاسی حکمت عملی کی اخلاقی قوت نہ ہو، وہ بہ ہرحال پٹ جاتی ہے۔
ہم چاہیں، تو تحریکِ انصاف کی بے شمار اس قسم کی حکمت عملیوں کی مثال دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے خاتمے کا تمام تر ذمے دار امریکہ کو بنایا۔ ان کے خلاف ’’سائفر‘‘ کو لے کر عوامی جلسوں میں تماشا لگایا، لیکن آج اسی امریکہ سے توقع وابستہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی متوقع کام یابی کو مرشد کی دوبارہ وزیرِاعظم ہاؤس آمد سمجھا جا رہا ہے۔
یہی کام تحریک انصاف اب آئینی ترامیم پر کر رہی ہے، جس طرح پارلیمنٹ کو فارم 47 اور 45 بناکر متنازع تو کر رہی ہے، لیکن وہاں بیٹھی بھی ہوئی ہے۔ اسی طرح کل آپ کو نظر آئے گا کہ یہی لوگ عدالت میں جارہے ہوں گے اور اگر تو ان کو توقع کے مطابق ریلیف ملتا ہے، تو بسم اﷲ اور اگر نہیں ملتا، تو پھر توتا مینا کی کہانی کہ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ ہمارے ساتھ غلط ہوگا۔
سو ہم مرشد سے ہاتھ جوڑ کر منت کر کے دکھیا بن کر یہ التماس کریں گے کہ مرشد مہربانی کریں، سیاست ضرور کریں، لیکن نظام کو چلنے دیں۔ ملک کے اندر سیاسی استحکام آنے دیں گے۔ تاکہ معیشت آگے بڑھ سکے اور ملک کا سفر بہتری کی جانب ہو۔
بہت شکریہ مرشد!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔