ریڈیو سے جڑی ہماری یادیں

Blogger Fazal Raziq Shahaab Swat
 	کبھی کبھی بڑھتی ہوئی ایجادات کا طوفان انسان کو ماضی کی طرف حسرت سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔موبائل نٹ ورک نے تو انسان کو بالکل جکڑ لیا ہے۔ مجھے تو یاد نہیں رہا کہ آخری بار مَیں نے کب ٹی وی چلاکر دیکھا ہے۔ خبریں بھی یوٹیوب پر دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہیں۔ 
	کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ کاش! دنیا ریڈیو سے آگے نہ بڑھتی۔ ریڈیو پر بعض نشر ہونے والے پروگرام جو کبھی روزمرہ زندگی کا حصہ ہوا کرتے تھے، قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ ریڈیو سیلون کا گیت مالا، ریڈیو پاکستان کا ’’دہ دوستانو خبرے اترے‘‘ اور ریڈیو کابل کا ’’دہ اماتورانو آرکسترا۔‘‘ آخر الذکر کی یاد بالکل بے ساختہ آگئی۔ جب رات گہری ہونے پر اناؤنسر کی آواز گونجتی: ’’دہ اماتورانو ارکسترا‘‘ اور ساتھ تیز مغربی سازوں کی دُھن پر احمد ظاہر کی آواز گونجتی
خدایا بل می پہ زڑگی کی نن انگار دے
تن انگار، سینہ انگار، بدن انگار دے
	یا ناشناس کے نغمگیں آواز میں
محبت اول اسان پہ نظر رازی
	یا 
لکہ زہ پہ یار میئن یم بل بہ نا وی میئن ھسے 
	کبھی کبھی نئے پرانے گانوں کے لیے یو ٹیوب پر سرچ کرتے ہیں، تو مل تو جاتے ہیں، لیکن موبائل کی سسٹم میں اس آواز میں نغمگی کا، شیرینی کا اور سوز کا فقدان ہوتا ہے۔
	ریڈیو کابل کا سب سے پسندیدہ پروگرام "Amature's orchestra" ہوا کرتا تھا، جس میں نئے شوقیہ فن کار متعارف کیے جاتے تھے۔ اس نے بڑے نام ور گلوکار متعارف کروائے۔
	ریڈیو ایران زاہدان سے ’’ثریا شہاب‘‘ اُردو کی خبریں سناتی تھی۔ مَیں یہ خبریں اپنے بابا کے ساتھ عمراخان نائب سالار صاحب کے بنگلے پر سنتا تھا۔ 
	والیِ سوات کے پرائیویٹ سیکریٹری محمود خان اور ریاستی اسلحہ خانہ کے انچارج مرزا محی الدین بھی ہمارے ساتھ شریکِ محفل ہوا کرتے تھے۔
	ثریا شہاب کی آواز سن کر محمود خان اکثر کہتے: "She must be very pritty. I love her voice." بعد میں جب ہم نے پاکستان ٹیلی وِژن پر اُسے خبریں پڑھتے دیکھا، تو معمولی شکل وصورت والی تھی۔
  ..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ 

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے