کہا جاتا ہے کہ سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے، کیوں کہ جو لوگ کسی نئے مقام یا ملک کا سفر کرتے ہیں، وہ کسی نہ کسی حوالے سے کام یابی ضرور حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کی کام یابی کا تعلق تعلیم، تجارت اور مالی اُمور کی منفعت سے ہوتا ہے جب کہ کچھ لوگ اپنے سفر کے ذریعے اجنبی معاشروں کی طرزِ زندگی اور بود و باش کا مشاہدہ کرکے نیا تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے ان تجربات اور مشاہدات کو اپنی تحریروں کے ذریعے دوسروں سے شیئر بھی کرتے ہیں۔ محمد شاہد عادل بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے برطانیہ کا سفرکیا اور وہاں تین مہینے گزارنے کے بعد جو کچھ دیکھا، محسوس کیا، اسے سفرنامہ کی شکل میں شائع کیا۔

شاہد صاحب کا مشاہدہ تیز اور نظر بڑی باریک بین ہے۔ انھوں نے ان تین مہینوں میں برطانیہ کے پورے سسٹم کا نہایت غور سے جائزہ لیا ہے۔ انگریزوں کی عمومی زندگی سے لے کر ان کی کرسمس اور نئے سال کی تقریبات، ان کے مجموعی رویوں، ٹرانسپورٹ سسٹم، پولیس کی برق رفتاریوں، تعلیمی اداروں اور لائبریریوں کے جال، بڑے، چھوٹے تجارتی مراکز، سیاحتی مقامات اور برطانیہ میں خوب صورت پارکوں کی موجودگی وغیرہ پر خوب صورت انداز میں قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے اپنے سفرنامے میں مقیم پاکستانیوں کے طرزِ زندگی کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ شاہد صاحب کو ہر جگہ وطنِ عزیز بھی یاد آتا رہا ہے جس کو ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور مذہب آلودہ سیاست نے زوال پزیر ریاست میں بدل دیا ہے۔ انھوں نے ہر شعبہ میں برطانیہ اور پاکستان کا تقابل کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ہم اس جدید دور میں پستی اور زوال کے کن راستوں کے مسافر ہیں اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک ترقی کی کن رفعتوں کی طرف رواں دواں ہیں۔
’’صدیوں کا سفر‘‘ ایک ایسا چشم کشا سفر نامہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ برطانیہ ہم سے ترقی و خوش حالی میں کئی صدی آگے ہے۔ ہم ابھی تک اپنے ابتدائی اور بنیادی نوعیت کے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ دنیا چاند اور ستاروں پر کمند ڈال رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ برطانیہ موجودہ مقام تک صدیوں کے سفر کے بعد پہنچا ہے لیکن آج کے جدیددور میں صدیوں کا سفر سالوں میں طے کرنا ممکن ہوچکا ہے۔ اس کی مثال چین، بھارت، ملیشیا، سنگا پور اور جنوبی کوریا وغیرہ کے ممالک ہیں،جنھوں نے بہت مختصر عرصے میں ہر شعبۂ زندگی میں بے مثال ترقی کی ہے۔ ہمارے ملک نے اگرچہ جنگی ساز و سامان میں ترقی ضرور کی ہے لیکن ہم معاشی اور اقتصادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہمارا عام آدمی اس ترقی یافتہ دور میں بھی زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتوں کے لیے ترس رہا ہے۔ صحت، تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے حوالے سے ہم کسی قابل رشک مقام پر فائز نہیں ہوسکے ہیں۔ حالاں کہ یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جنھیں حل نہیں کیاجاسکتا لیکن ہمارے حکمرانوں نے بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور ان کا مطمح نظر صرف اور صرف اپنی ذات اور مفادات ہیں۔

محمد شاہد عادل کا اُسلوب نہایت سادہ اور رواں ہے ۔ سفر نامہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قاری ان کے ساتھ ہی ہم سفر ہو۔ وہ جس طرح ہر منظر کے جزئیات میں اتر کر قاری کو اپنے مشاہدے اور سفر و سیاحت میں شریک کرتے ہیں، اس سے پڑھنے والا بھی محظوظ ہوتا ہے۔ وہ جب منظر نگاری کرنے لگتے ہیں، تو قاری کے چشم تصور میں پورا منظر حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے۔ اوّل سے لے کر آخر تک قاری مصنف کا ہاتھ تھامے رہتا ہے کہ اب صاحبِ کتاب اسے کن اجنبی دُنیاؤں کا سیر کرانے والا ہے۔
اس سفرنامہ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کسی مقام کی خشک تاریخ بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ مصنف نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا ہے یا جیسا مشاہدہ کیا ہے، اسے براہِ راست اپنے قارئین تک سیدھے سادے اور عام فہم انداز میں پہنچایا ہے۔ برطانیہ اور وطن عزیز کا تقابل کرتے ہوئے شاہد صاحب اپنے قاری کو مایوسی کی طرف نہیں دھکیلتے۔ وہ اسے محض یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نہایت اَن مول اور وسائل سے مالا مال ملک عطا کیا ہے لیکن مقتدر طبقوں نے اسے پستی اور زوال کی آخری حدود تک پہنچا دیا ہے۔ وہ اپنے سفرنامہ کے ’’حاصل‘‘ میں بتاتے ہیں کہ اگر پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر بنائی جائے، ہر شخص کو برابری کی بنیاد پر انصاف اور جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کی نیت ملک و قوم کی فلاح و بہبود ہوجائے اور وہ اس ملک کو حقیقی معنوں میں اپنا ملک سمجھیں، تو ہمارے لوگ دوسرے ملکوں میں روزگار کے لیے دھکے نہ کھائیں بلکہ دوسرے ممالک کے لوگ ہماری ترقی اور خوش حالی دیکھ کر ہمارے ملک کی طرف کھنچے چلے آئیں۔
محمد شاہد عادل بنیادی طور پر ایک ناشر ہیں۔ وہ خوب صورت کتابیں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں میں مطالعہ کا ذوق ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ادارے ’’المیزان‘‘ کے تحت اب تک سیکڑوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ نشر و اشاعت کو انھوں نے ایک فن کا درجہ دیا ہے۔ کتابوں کی معیت میں زندگی گزارتے ہوئے انھوں نے پہلی دفعہ قلم اٹھایا ہے لیکن کتاب پڑھتے ہوئے کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی نو آموز کی لکھی ہوئی ہے۔ انھوں نے بڑے سلجھے ہوئے دل چسپ انداز میں اپنے قاری کو برطانیہ کی زندگی کے مختلف لیکن بنیادی گوشوں سے متعارف کرایا ہے۔ یہ سفرنامہ پڑھ کر قاری کے ذہن میں برطانیہ کا ایک دل کش اور واضح تصور اُبھر آتا ہے۔
غرض ’’صدیوں کا سفر‘‘ اردو کے سفرناموں میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔
اس کی اشاعت کا اہتمام مصنف ہی کے ادارہ ’’المیزان پبلشرز‘‘ اردو بازار لاہور نے کیا ہے۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔