چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پہلا جبکہ رقبے کے اعتبار سے چوتھا (کچھ روایات میں تیسرا) بڑا ملک ہے۔ سنہ 1949ء کو یہ آزاد ہوا۔ شروعات میں چین بے شمار مسائل میں گھِرا ہوا تھا۔ ملک چلانے کے لیے ضروری وسائل اور کوئی خاص پالیسی نہ تھی۔ عوام ہر وقت نشے میں دھت رہتے تھے۔ ملک کا مستقبل مخدوش نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسے حالات میں ’’ماؤزے تنگ‘‘ جو جدید چین کا بانی تصور کیا جاتا ہے، نے ملک کو روشن مستقبل دینے کیلئے کوششیں شروع کیں اور وہ لوگ جو ہر وقت نشے میں دھت رہتے تھے، ان کو دنیا کی بہترین اور محنتی قوم بنایا۔ بعد میں چین بہت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور آج یہ ترقی یافتہ ممالک کے فہرست میں ٹاپ پر ہے۔

جدید چین کا بانی "ماوزے تنگ” (Photo: Interesting Facts)

چین کا شمار دنیاکے ان پانچ طاقتور ترین ممالک میں ہوتا ہے جو ’’ویٹو‘‘ کا حق رکھتے ہیں۔ اس طرح اگر معیشت کی بات کی جائے، تو شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہوگا جو چین کی بنائی گئی مصنوعات استعمال نہ کرتا ہو۔ پاکستان کے ساتھ اس کی دوستی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ چین بھی پاکستان کی ہر لحاظ سے مدد کرتا چلا آ رہا ہے۔ چاہے وہ جنگی ساز و سامان ہو یا معیشت کی بہتری کیلئے اقدام۔ آج کے دور میں اس مثالی دوستی کی زندہ مثال ’’سی پیک‘‘ ہے۔

چین کا شمار دنیاکے ان پانچ طاقتور ترین ممالک میں ہوتا ہے جو ’’ویٹو‘‘ کا حق رکھتے ہیں۔ (Photo: CNBC.com)

پاکستان نے بھی اپنی طرف سے چین کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ شروعات میں جب چین بے پناہ مسائل میں گھرا ہوا تھا، تو اسے ان حالات سے نکالنے کی پاکستان نے بھرپور کوشش کی۔ اس طرح ہمارا جان سے پیارا ملک پاکستان وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے چین کی خودمختاری کو تسلیم کیا اور چین کی سرزمین پر سب سے پہلے اترنے والا جہاز بھی پاکستان ہی کا تھا، جس کا چینیوں نے پرتپاک استقبال کیا تھا۔

اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چلئے، آج ہم آپ کو چائینہ کی سیر کراتے ہیں:

کمیونسٹ پارٹی نے بیجنگ (چین کا دارالحکومت) میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا ہوا ہے جہاں آنے والے وقت کیلئے صدر اور وزرا تیار کیے جاتے ہیں۔ اس طرح جو رکن صدر یا وزیر منتخب ہوتا ہے، اسے پانچ سال پہلے ہی اس پوزیشن کا قابل بنا دیا گیا ہوتا ہے۔

چین کی شرحِ خواندگی تقریباً 100 فیصد ہے۔ ملک کے 97 فیصد نوجوان ملک میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے حق میں ہیں۔ کیوں کہ ان کے نزدیک سب سے بہتر اور کم خرچ پر چین سے بہتر نظام تعلیم اور کہیں بھی میسر نہیں ہے۔
چین کے عوام جب بھی بیرونی ممالک جاتے ہیں، تو اچھی خاصی مقدار میں چینی مصنوعات اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چین کی ترقی میں مددگار عمل ثابت ہوتا ہے۔

چین کی شرحِ خواندگی تقریباً 100 فیصد ہے۔ ملک کے 97 فیصد نوجوان ملک میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے حق میں ہیں۔ (Photo: Mass Communications)

چین میں کرپشن اور چوری کی سزا موت ہے۔ ایسا کرنے والے کو سر میں گولی مار دی جاتی ہے اور اس گولی کی قیمت بھی میت کے ورثا سے وصول کی جاتی ہے اور تب تک میّت حکومت کے قبضے میں ہوتی ہے جب تک وہ اس گولی کی قیمت سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتے۔

اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود پورے ملک میں ایک ہی ٹائم زون ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کے نام اولمپک کے مشہور کھیلوں پر رکھتے ہیں۔ شام کے وقت تقریباً پوری قوم ایک ہی چینل دیکھ رہی ہوتی ہے۔ پوری قوم تقریباً ایک ہی جیسا کھانا کھاتی ہے۔ سرکار کی طرف سے مزدور اور افسران کو ایک ہی طرح کا کھانا دیا جاتا ہے۔

چین میں کرپشن اور چوری کی سزا موت ہے۔ ایسا کرنے والے کو سر میں گولی مار دی جاتی ہے اور اس گولی کی قیمت بھی میت کے ورثا سے وصول کی جاتی ہے

چین میں یو ایس اے ٹاؤن ہے جہاں کسی کو چینی زبان میں بولنے کی اجازت نہیں۔ ٹھیک اسی طرح یو ایس اے میں چائنہ ٹاؤن ہے جہاں کسی کو انگلش میں بولنے کی اجازت نہیں۔

اس وقت چین میں تقریباً پچاس ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے آدھے سے زیادہ چین کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر شنگھائی میں ہیں۔

اس کے علاوہ چین قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہے اور بہت سے قدرتی وسائل، فصلیں، سبزیاں اور فروٹ ایسے ہیں جو باقی ممالک کی نسبت چین میں سب سے زیادہ مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان اجناس میں چاول، گندم، چائے، آلو، پیاز اور ٹماٹر جیسی بنیادی ضروریات کے علاوہ بے شمار چیزیں ایسی ہیں جنہیں بنانے یا پیدا کرنے میں چین کا کوئی ثانی نہیں۔ شائد انہی وجوہات کی بنا پر ہر لحاظ سے یہ ملک ایک خود مختار اور مضبوط مملکت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

……………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونی والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔