تحریر: نذیر احمد بشیری 
ملاکنڈ ڈویژن، جو صوبے کا سب سے بڑا ڈویژن ہے، نو اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔
اس ڈویژن میں خواتین کی کوئی یونیورسٹی موجود نہیں، جب کہ مردان ڈویژن، جو کہ صرف دو اضلاع یعنی ضلع مردان اورضلع صوابی پر مشتمل ہے اور جس کی کل آبادی صرف پینتالیس لاکھ ہے، وہاں خواتین کی دو یونیورسٹیاں، دو عمومی یونیورسٹیاں، ایک انجینئرنگ اور ایک زرعی یونی ورسٹی قائم ہیں۔ جب کہ دوسری طرف یونیورسٹی آف سوات (جنرل) 2010ء میں 38 سال انتظار کے بعد قائم کی گئی، مگر سوات میں خواتین کی تعلیم کے مواقع کی اب بھی شدید کمی ہے۔
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کا ایک اہم ستون ہے۔ بدقسمتی سے، سوات میں خواتین کی تعلیم کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا ہے، بل کہ ڈھیر سارے خاندان اپنی بیٹیوں کو اعلا تعلیم کے لیے مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال خواتین یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔
خواتین کی تعلیم معاشرتی تبدیلی کا اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر خواتین کو تعلیم کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں، تو ان کی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں ہوسکتا۔ تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف خود کو بااختیار بناتی ہیں، بل کہ وہ اپنے خاندانوں اور معاشرے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ خواتین کی تعلیم میں اضافہ کرنے سے نہ صرف اُن کی زندگی میں بہتری آئے گی، بل کہ پورے معاشرے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
سوات میں خواتین کے لیے سوات یونیورسٹی کا کیمپس 2017ء میں قائم کیا گیا، مگر یہ صرف چار شعبہ جات پر مشتمل ہے، جو کہ خواتین کی تعلیمی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ اس کیمپس کو مکمل یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ یہاں کی خواتین اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ اس طرح کے اقدام سے نہ صرف خواتین کی تعلیم میں اضافہ ہوگا، بل کہ پورے معاشرے میں شعور بھی بڑھے گا۔ سوات، جو کہ ملاکنڈ کے تمام 9 اضلاع اور کوہستان کے تین اضلاع کا مرکز ہے، میں خواتین یونیورسٹی کے قیام سے تمام لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا آسان ہوگا۔
حکومت اور مقامی قیادت سے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کا حل نکالیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے مخصوص اقدامات کرے، جیسے کہ خواتین یونیورسٹی کے قیام کے لیے فنڈز مختص کرنا اور تعلیمی سہولیات فراہم کرنا۔ اس کے علاوہ مقامی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اس معاملے میں آگے آنا چاہیے، تاکہ خواتین کی تعلیم کے لیے شعور اجاگر کیا جاسکے۔ نوجوانوں کو بھی اس معاملے میں آگے آنا چاہیے۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ اپنے والدین اور دیگر افراد کو خواتین کی تعلیم کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کریں۔ اگر معاشرت میں خواتین کو برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں، تو وہ خود کو بہتر طریقے سے پیش کر سکتی ہیں اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اس معاملے میں جناب امجد علی خان ایم این اے، علی شاہ خان ایم پی اے اور ڈاکٹر حسن شیر وائس چانسلر سوات یونی ورسٹی سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے میں گہری دل چسپی لیں اور وزیرِ اعلا علی امین گنڈاپور سے گفت گو کریں، تاکہ سوات میں خواتین یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا جاسکے۔
اس اقدام سے نہ صرف سوات کی خواتین کو اعلا تعلیم کے مواقع ملیں گے، بل کہ یہ ایک پیغام بھی دے گا کہ حکومت خواتین کی تعلیم کو اہمیت دیتی ہے اور ان کے حقوق کی حمایت کرتی ہے۔ اس سکیم کو آیندہ مالی سال 2025-26ء کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں شامل کیا جا سکے۔
تعلیم کی روشنی میں تبدیلی آتی ہے اور جب خواتین کو تعلیم دی جائے، تو وہ اپنے خاندانوں، معاشرے اور ملک کے لیے بہتر فیصلے کرسکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا سرمایہ ہے جس کا اثر کئی نسلوں تک جاری رہتا ہے۔ لہٰذا سوات میں خواتین یونیورسٹی کا قیام نہ صرف ایک تعلیمی ضرورت ہے، بل کہ یہ معاشرتی تبدیلی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کرے، جس میں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور مقامی سطح پر خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ تعلیمی اداروں کو بھی اس معاملے میں آگے آنا چاہیے اور خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے خصوصی پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔
سوات میں خواتین کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کا قیام ایک عظیم موقع ہوگا۔ اس کے ذریعے نہ صرف خواتین کو اعلا تعلیم کے مواقع فراہم ہوں گے، بل کہ یہ معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو بھی مستحکم کرے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے میں بروقت اقدامات کیے جائیں، تاکہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاسکیں اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لا سکیں۔
وائس چانسلر ڈاکٹر حسن شیر، جناب امجد علی خان ایم این اے اور علی شاہ خان ایم پی اے کو اس مسئلے کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ اس معاملے میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔