پہلی جنگ عظیم کے دوران میں جہاں پر مختلف قومیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھیں، تو ایسے میں برطانیہ کی خواتین بھی اپنے لیے حقِ رائے دہی کے حصول کی خاطر جنگ لڑ رہی تھیں۔ سو برس قبل چھے فروری انیس سو اٹھارہ کو تیس برس سے زیادہ عمر کی خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔ یوں برطانیہ کی سیاست میں ایک منفرد تبدیلی کا آغاز ہوا۔ اس جدوجہد میں خواتین کو زنجیروں سے باندھا گیا۔ اجلاسوں پر حملے ہوئے اور ان کے خلاف ہتھیار بھی استعمال ہوا۔ ’’پانکھرسٹ‘‘ ایک برطانوی خاتون ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’مائی اون سٹوری‘‘ میں لکھا ہے کہ ــ’’خواتین کی تحریک اس وقت زور پکڑ گئی، جب اُنیس سو تیرہ میں اس تحریک کی سرگرم رکن ایملی ڈیوسن نے بادشاہ کے گھوڑے کے سامنے خود کشی کی۔‘‘
برطانیہ سے پہلے دیگر یورپی ممالک میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا جا چکا تھا۔ نیوزی لینڈ نے اٹھارہ سو تریانوے، آسٹریلیا نے اُنیس سو دو، فن لینڈ نے اُنیس سو چھے اور ناروے نے اُنیس سو تیرہ میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا۔ برطانوی خواتین کو ووٹ کا حق دینا اس لیے اہم تھا، کیوں کہ اس کا براہِ راست اثر ان علاقوں پر تھا جو برطانیہ کے زیرِ اثر تھے، جو بعد میں مختلف ممالک میں تبدیل ہوئے۔
قارئینِ کرام! پاکستان کا آئین اور قانون خواتین کو ووٹ دینے کاحق دیتے ہیں، مگر بعض علاقوں میں اب بھی خواتین ووٹ دینے کے حق سے محروم ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ خواتین کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں۔ خیبر پختونخوااور بلوچستان میں بعض وجوہات کی بنا پر شناختی کارڈ نہیں بنوائے جاتے، جس کی وجہ سے وہ ووٹ استعمال نہیں کرسکتیں۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں خیبر پختونخوا کی خواتین نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا تھا۔ یوں بعض حلقوں پر انتخابات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔ بعد میں اسے برقرار رکھا گیا۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ ضمنی بلدیاتی انتخابات تین دفعہ صرف اس بنا پر ملتوی کیے گئے کہ خواتین نے ووٹ کا استعمال نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود ان حلقوں پر خواتین نے ووٹ نہیں دیا جس پر الیکشن کمیشن نے خاموشی اختیار کی۔
خیبر پختونخوا خواتین کے حوالہ سے ووٹ نہ دینے میں اول نمبر پر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خواتین میں سیاسی شعور کا فقدان ہے۔ گھریلو خواتین سرے سے سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ گھر پر شوہر سیاسی ٹاک شوز دیکھ رہا ہوتا ہے، جب کہ خواتین ڈراموں کو فوقیت دیتی ہیں۔ جہاں پر سیاسی بحث شروع ہوتی ہے، خواتین اس بحث کا حصہ نہیں ہوتیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق صرف وہ انتخابات قابل قبول ہوں گے، جہاں پر خواتین ووٹ کی تعداد دس فیصد ہو۔ اس اقدام سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب جرگوں کی صورت میں خواتین کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جائے گا۔
دوسری بنیادی وجہ ثقافتی اور سماجی اقدار ہے۔ خیبر پختونخوا میں کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ خواتین اپنا ووٹ دیں۔ اس کی وجہ خواتین کا الگ پولنگ اسٹیشن نہ ہونا ہے اور جہاں پر سیکورٹی اہلکار مرد ہوتے ہیں۔
ہمارے جیسے قدامت پرست معاشرہ میں عورتوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک طرف معاشرہ میں بڑھتی ہوئی رجعت پسندی نے خواتین کو ووٹ دینے سے محروم کر دیا ہے۔ تو دوسری طرف شہری علاقوں میں خواتین باہر تو نکلتی ہیں، لیکن ووٹ دینے میں اب بھی ان کو خاص آگاہی نہیں ہوئی۔
الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں اس بار خواتین امیدوار بھی میدان میں ہیں، جو کہ خواتین کے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے اچھا تاثر ہے۔
قارئین، ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین ووٹرز کو آگاہی کا سامان مہیا کیا جائے۔ ووٹ کی اہمیت اور ضرورت پر کھل کر بات کی جائے۔ جب ریاست نے خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا ہے، تو اس میں بُرا کیا ہے؟ وقتاً فوقتاً اس مہم کا جائزہ لے کر متبادل حکمت عملی پر توجہ کی ضرورت ہے۔ زمینی حقائق پر مبنی رائے کا احترام کیا جائے اور اس کی رُو سے خواتین میں سیاسی شعور و آگاہی مہم کو تیز کیا جائے۔

………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔