ہمارا یہ کالم آج بدھ کی صبح مورخہ 15 مارچ 2023ء کو صبح کے وقت تحریر کیا جا رہا ہے…… اور مَیں نہیں جانتا کہ جب یہ کالم شائع ہوگا، تو ملک کی سیاسی صورتِ حال کیا ہوگی؟ لیکن اب تک کی صورتِ حال یہ ہے لاہور کا زمان پارک میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ایک سیاسی لیڈر جو کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا قائد ہے، سابقہ وزیرِ اعظم ہے اور اپنی شخصیت میں عوام کے ایک بڑے حلقے میں مقبول بھی ہے، مقیم ہے۔ اب اُس پر کچھ مقدمات ہیں اور اُن مقدمات میں وہ پیش نہیں ہونا چاہتا۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ ایک تو یہ مقدمات ’’فیک‘‘ اور جھوٹے ہیں اور دوسرا اس کا خیال ہے کہ اسلام آباد کی جس سیشن کورٹ میں اسکو طلب کیا جا رہا ہے، اس عدالت کی لوکیشن اس جگہ ہے کہ جہاں اس پر باقاعدہ جسمانی حملہ ہوسکتا ہے۔ اس کے نتائج کے حوالے سے اس کو یہ اندیشہ ہے کہ اس کی جان بھی جاسکتی ہے۔
ویسے اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے، تو یہ دونوں دلائل انتہائی بوگس اور مضحکہ خیز ہیں۔ مثلاً جہاں تک مقدمات کی بات ہے، تو اس کے صیح یا غلط کا فیصلہ تو بہرحال عدالتوں نے ہی کرنا ہے اور آپ کو یہ پورا حق حاصل ہے کہ آپ قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا سامنا کریں۔ ملک کے نامور وکلا آپ کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ پھر یہ مقدمات ابھی اپنی ابتدا میں یعنی سیشن کورٹ میں ہیں، اگر بالفرض یہاں آپ کو سزا ہو بھی جاتی ہے، تو پھر ہائی کورٹ میں اپیل اور آخر میں سپریم کورٹ میں اپیل۔ سو عدالتیں مروجہ قوانین کے تحت فیصلہ کر دیں گی۔ اس میں پریشانی کیسی؟
باقی اس سے وابستہ آپ کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ گرفتاری کے بعد آپ سے ناروا سلوک کیا جائے گا۔ یہ بات عملاً ممکن ہی نہیں۔ یہ مارشل کا دور نہیں۔ پھر پولیس کی یہ جرات نہیں کہ وہ ملک کے ایک مقبول ترین لیڈر کو اس طرح بے عزت کرے یا مس ہینڈلنگ کرے۔
دوسری بات، جہاں تک آپ یہ کَہ رہے ہیں کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، تو سر! اول تو آپ یہ آیت پڑھ کر تقریر کی ابتدا کرتے ہیں کہ ’’اے اﷲ!ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تم سے ہی مدد چاہتے ہیں۔‘‘ اور بطورِ مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ تو پھر ڈر کیسا……! جب کہ یہ تبلیغ آپ روز اپنے کارکنان کو کرتے ہیں کہ خوف اور ڈر خود سے دور کرلو۔ مرنا ہے، تو عزت سے مرو۔
لیکن خود آپ کا کردار کیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے ہی نہیں۔ اصل میں عمران خان کا منشا کیا ہے؟ اس کو بیان کرنے سے پہلے ہم پاکستان کی جدید تاریخ کے چند واقعات لکھنا چاہتے ہیں کہ ایک عوامی راہنما کیسا ہوتا ہے، یا کیسا ہونا چاہیے؟
پاکستان میں ماضیِ قریب میں ایک سیاست دان ہوگزرے ہیں جن کا نام تھا ذوالفقار علی بھٹو۔ بھٹو صاحب سانگھڑ میں ایک عوامی اجتماع سے لوٹ رہے تھے کہ اچانک ان پر چاروں طرف سے حملہ ہوگیا۔ اُس وقت نہ تو بلٹ پروف کی سہولت تھی اور نہ حکومتی گارڈ حفاظت کے لیے ملتے تھے۔ بعد میں یہ خبر نکلی کہ یہ حملہ پیر صاحب آف پگارا نے کروایا تھا اور ان کا مقصد بھٹو کو قتل کرنا نہیں بلکہ صرف اپنی طاقت کا اظہار کرنا اور ڈرانا تھا…… لیکن جوں ہی فائرنگ ہوئی بھٹو نے گاڑی روکی اور چھلانگ لگا کر اپنے کارکنان سے آگے آکر چیخ کر بولنا اور للکارنا شروع کر دیا کہ ہمت ہے، تو مجھے مارو! میرے کارکنان پر مت گولی چلاؤ۔ اس کے بعد کارکنان بھٹو کے اوپر گر پڑے۔ کسی نے ایک تصویر بنا لی اور اس تصویر کو پھر بی بی کے سامنے آج کل کے پی پی کے ایک بڑے عہدے دار نے خوب کیش بھی کروایا کہ ہم تو جان دینے والے تھے۔
کہنے کا مطلب ہے کہ لیڈر وہی ہوتا ہے، جو خود آگے کھڑا ہو۔
اب ایک واقعہ اور، جب اے این پی کے لیاقت باغ جلسہ میں گولی چلی، تو سب کے روکنے کے باجود خان عبدالولی خان خود سٹیج پر کھڑے ہوگئے کہ مجھے مارو! میرے غریب کارکنان کو کیسے مار سکتے ہو؟
پھر اُسی لیاقت باغ نے دیکھا کہ جب غلام مصطفی کھر، بھٹو صاحب سے بغاوت کر کے آئے اور ان کے جلسے میں پانی اور سانپ چھوڑے گئے۔ کھر صاحب نے سٹیج سے چھلانگ لگائی اور ایک زندہ سانپ کو پکڑ کر ہاتھوں سے مسل دیا اور کہا کہ پہلے میں جان دوں گا، پھر میرے کارکن۔
اسی طرح ایک دفعہ محترمہ بینظیر بھٹو کہیں جا رہی تھیں، تب اُن کی سیکریٹری شاید ایک سابقہ نیول چیف کی بیٹی یاسمین نامی خاتون تھیں۔ حکومت سے حکم ہوا کہ یاسمین کو گرفتار کرلو۔ کیوں کہ حکومت کو شک تھا کہ بی بی کی سب سے اعتماد والی رابطہ کار یاسمین ہے، لیکن جوں ہی اہل کار آئے محترمہ بینظیر بھٹو آگے کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ یاسمین اکیلے گرفتاری نہیں دے گی۔ حکومت نے بہت کوشش کی، لیکن بی بی نے یاسمین کو خود سے لپٹا لیا۔ آخر اوپر سے یہ حکم ہوا کہ ٹھیک ہے، اگر ایسا ہے، تو پھر دونوں کو گرفتار کر لو۔
عدلیہ تحریک تو ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ جب بی بی اپنے تینوں معصوم بچوں کے ساتھ پہلی صف میں موجود ہوتی تھی۔
اسی طرح تحریکِ نجات میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ میاں صاحب کے اردگرد دوسرے درجے کی لاٹ کو پکڑ لیا جائے، لیکن جب میاں نواز شریف کو معلوم ہوا، تو وہ اُسی وقت وہاں پہنچ گئے اور یہ اعلان کیا کہ گرفتاری مجھ سے شروع ہوگی۔
پھر کل کی بات ہے کہ مرحومہ کلثوم شریف، مشرف آمریت کے خلاف صفِ اول میں تھی اور ان کی کار کو کرین سے اُٹھا لیا گیا تھا۔ اسی طرح ہم نے دیکھا آصف زرداری کے جب بھی وارنٹ نکلے، وہ مسکراتے ہوئے پولیس وین میں بیٹھ گئے۔
فریال تالپور نے بغیر مزاحمت گرفتاری دے دی۔ نواز شریف بیمار بیوی چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ جیل پہنچ گئے۔ حتی کے گجرات کے چوہدریوں سے لے کر شیخ رشید تک ہم نے نہیں سنا کہ کسی نے اس طرح مزاحمت کی ہو کہ انسانوں کی دیوار بنا دیا ہو۔ غریب کارکنان کو آنسو گیس کے لیے آگے کر دیا ہو اور خود بزدلوں کی طرح چھپ کر بیٹھ جاؤ۔ یہ ایک عام لیڈر کی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے، تو پھر عمران خان جیسا مقبول عوامی راہنما ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس کا سادہ سا مقصد بس ایک ہی ہے کہ عمران خان انتظامیہ، خاص کر پولیس اور تحریکِ انصاف کے کارکنان کے درمیان براہِ راست جسمانی تصادم چاہتا ہے۔ خان صاحب کی یہ کوشش بھی ہے اور حکمت عملی بھی کہ کسی طرح پولیس کو مجبور کیا جائے کہ وہ کنٹرول سے باہر ہو جائے، برانگیختہ ہو جائے اور انصافی کارکنان پر ٹوٹ پڑے…… بلکہ خدا نخواستہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہرائی جائے۔ لاشیں گرائی جائیں۔ ضلے شاہ کی طرح کچھ ماؤں کی گودیں اجاڑ دی جائیں اور پھر خان صاحب کے پاس ہم دردی اور مظلومیت کا بے انتہا مواد جمع ہو جائے۔ وہ لہک لہک کر اس سانحے کا شکار بننے والے مظلومین کا ذکر کریں اور اپنی ہم دردی میں اضافہ اور مقبولیت میں بدستور بڑھاوا کرتے جائیں۔ وہ اس ظالمانہ حکمت عملی کو شاید اپنی بہتر سیاسی پلاننگ سمجھ رہے ہیں۔
ویسے اس بات کا تو خان صاحب کو مکمل ادراک بھی ہے اور احساس بھی کہ ان کے ساتھ اکثریت باشعور سیاسی کارکنان کی نہیں بلکہ ایک سطحی ذہن کا خود پسند گروہ ہے، جو اُن کا سیاسی یا نظریاتی کارکن نہیں۔ کوئی سیاسی جد و جہد کرنے والا ورکر نہیں، بلکہ وہ ان کا فین ہے، بلکہ ان کا جنونی عاشق ہے۔ سو ایسے عاشقان کے لیے حالات کا سیاسی تجزیہ مثبت اور حقائق پر مبنی سیاسی پیش رفت بالکل اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کے لیے خان صاحب کا فرمایا ہوا ایک ایک لفظ حق ہے بلکہ شاید کوئی صیغۂ آسمانی ہے۔اب عمران خان نے بے شک کچھ تبدیلیاں کر دی ہیں جس میں سے سب سے بڑی تبدیلی تو یہی ہے کہ سیاست میں ہمیشہ گاندھی سے مینڈیلا تک عدنان مینڈریس سے ذوالفقار علی بھٹو تک اور محترمہ بینظیر بھٹو سے نواز شریف تک لیڈر پہلے خود گرفتاری دیتے رہے، بعد میں کارکنان…… لیکن عمران خان خود زمان پارک میں مزے کرتے ہیں اور کارکنان کو مصیبتوں کے لیے آگے کردیتے ہیں۔
جب یہ کالم یہاں تک پہنچا، تو بریکنگ نیوز چل پڑی کہ لاہور ہائی کورٹ نے عارضی طور پر خان کے وارنٹ روک دیے۔ عدلیہ کا بہت احترام ہے، لیکن ہم لاہور ہائی کورٹ سے یہ عرض داشت ضرور کریں گے کہ جنابِ والا! اگر عمران خان کی جگہ کوئی عام شہری یہ مذاق بناتا عدالت کا اور اس طرح وارنٹ گرفتاری کے جواب میں جتھا لے کر پولیس کی پٹائی شروع کر دیتا، تو کیا پھر بھی عدالت کا رویہ یہی ہوتا؟
ہمارے خیال میں تو عدالت کو بنا سنے یہ حکم دینا چاہیے تھا کہ ابھی اور اسی وقت عمران خان کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جائے اور اگر ضروری ہو، تو فوج کو طلب کر لیا جائے…… لیکن افسوس کہ عدالت بھی جتھے کے آگے سرنگوں ہوگئی۔ بہت شرم کی بات ہے کہ کس طرح دن دہاڑے ریاستِ مدینہ کے دعوے دار دو نہیں۔ ایک پاکستان بنانے کا مدعی اور انصاف کے نام سے جماعت چلانے والا ایک سیاست دان کس طرح ریاست، آئین اور قانون کو ایک جتھے کی طاقت سے بلیک میل کرتا ہے؟ اور ہماری ریاست اور عدلیہ خاموش کیا بلکہ اس سے مرعوب ہو جاتی ہے۔
اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ریاست اتنی کھوکھلی اور حکومت اتنی کم زور ہوچکی ہے، تو پھر فواد چوہدری کی بات کو صحیح مان لیں کہ آپ بہارا کہو سے روات تک تیس کلومیٹر کے علاقہ میں حکومت کر کے کیا حاصل کر رہے ہیں؟ پھر نتائج سے بے پروا ہو کر تمام اسمبلیاں توڑ دیں اور نئے عام انتخابات کا اعلان کر دیں اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔ تاکہ ملک میں ایک مضبوط حکومت بنے اور شاید ہم آگے بڑھ سکیں۔ کیوں کہ جو حکومت ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان لا رہی ہے، ڈالر اور پٹرول کو کنٹرول نہیں کر سکتی اور ایک ایسے شخص کے جس کے وارنٹ باقاعدہ عدالت نے جاری کیے ہیں، کو چند دن کے لیے گرفتار نہیں کرسکتی، تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ سو آخری اپیل حکومت سے کہ مائی لارڈ! کرسی سے مت چمٹے رہیں اور مہربانی کر کے انتخابات کی طرف جائیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے، تو آئین و جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ میں آپ بھی بہرحال برابر کے حصہ دار ہیں۔ اس طرح خان صاحب آپ بھی دلیر راہنما بنیں۔ یہ نہیں کہ رات کو معمول کی گشت پر پولیس ہو اور سائرن سنتے ہی آپ کی ویڈیو جاری ہو جائے کہ زمان پارک پہنچو!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔