اپنا چلتا پھرتا، تازہ دم کارواں جنوبی پنجاب کے سابقہ نوابی ریاست بہاول پور کے رومانوی قصبے ’’پنجند‘‘ سے نکل کراُوچ شریف کی طرف مارچ پاسٹ کرتا ہوا وادیِ مہران کے نامی گرامی شہرسکھر میں بڑے شان وشوکت سے قدم رنجہ فرماتا ہے۔ موٹر وے کے دونوں اطراف گندم کی ہری بھری فصل کی کہیں باچھیں کھل رہی ہیں، کہیں بالیاں لہرا رہی ہیں، کہیں نکلے ہوئے خوشے خوشی کے گیت گا تے آنے جانے والوں کو فرشی سلام دے رہی ہے۔ ہمیشہ سے اِسی مہربان ماہِ دسمبر میں یہاں کے سانولے مرد و زن باہمی طور پرانہی کھیتیوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں، حسن و عشق کے سمندر میں ڈبکیاں مارتے ہیں، بہار کے زمانے، حسین گلوں کے سائے اور گندم کے دانے کا انتظار کرتے ہیں۔ دریائے سندھ کے جنوبی کنارے آباد 8 اضلاع اور لگ بھگ 17 لاکھ آبادی پر مشتمل سکھر شہر شمالی سندھ کا بڑا زرعی و تجارتی دروازہ تو ہے ہی، یہ اپنے وطن کے تین صوبوں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کو بھی آپس میں جوڑتا ہے۔ کیلے کے ساتھ ساتھ کھجور بھی یہاں کے معاش اور معاشرت پر قابض ہے۔ کچھ اونچے اونچے بارُعب کھجور، کچھ بونے بونے با برکت کھجور۔ اگرچہ اپنے عظیم صوفی بزرگ شاعر بھگت کبیر، جن کو ولیِ کامل سمجھا جاتا تھا، دو وجوہات کی بنا پر کھجور کے معصوم درختوں سے نالاں تھے۔ آپ کی نظر میں ذرا کھجور اور کپاس کا موازنہ ملاحظہ ہو۔
پریتم ایسی پریت نا کریوجیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ نا ہی بھو ک لگے پھل دور
پریت کبیرا!ایسی کریوجیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانپے، مرو نہ چھوڑے ساتھ
بہر حال، ہم کون ہوتے ہیں بیچ اس بابت بولنے والے!
اپنے علاقائی میزبانوں سے مروی ہے کہ یہاں کا 5 ہزار فٹ طویل سکھر بیراج جو 193 2ء میں برطانوی راج میں مکمل ہوا اور جو سندھ کے نظامِ آب پاشی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جرمِ ضعیفی کا شکار ہوگیا ہے۔ اب بھی اس سے نکلی ہوئی سات نہر یں بڑی خاموشی اور ذمہ داری کے ساتھ دس بارہ لاکھ ایکڑ زمین کے لہلہانے کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ سندھ میں معاشی ترقی کا دور دورہ اِس بیراج کی تکمیل سے شروع ہوا۔ اِس عظیم منصوبے سے علاقے کے لوگوں کو بھی روزگار ملا۔ جب کہ بلوچستان اور پنجاب کے ہمسایہ علاقوں سمیت شرق و غرب کے پختون بھی آہستہ آہستہ یہاں لنگر انداز ہوئے اور پھر یہی کے ہو کر رہے۔ اپنے سکھر شریف کے مکینوں کے دل کی وسعت اور بے پایاں محبت کا اندازہ اِس اَمرسے لگائیں کہ انہوں نے یہاں رہنے والے پختونوں کو سندھی پختون کے نام سے نوازا ہوا ہے۔
ہم سرِشام اِس زندہ و تابندہ شہر کے ایک گیسٹ ہاؤس میں تھکن اُتارنے گاڑی سے اُترتے ہیں اور اِسی سندھی پختون رشتے کا ’’جائز فائدہ‘‘ اُٹھا کر وہاں خوب دھما چوکڑی مچاتے ہیں۔ برسرِ عام ’’خود پکاؤ، خود کھاؤ‘‘ کی محفل جماتے ہیں اور اگلے دن نہ چاہتے ہوئے اُن سے رخصت لیتے ہیں۔
وقت کی کمی کے پیشِ نظرسکھر کی سیر سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں اور اپنے دیرینہ دوست انصاراحمد خان لُنڈ کے پِنڈ سے بھی چوری چپکے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے سرزمینِ سانگھڑ کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر کیا دیکھتے ہیں کہ اپنے ’’مریدِاول‘‘ حاضر گل کے کئی دوست سائیں پنوں خان کی معیت میں ہمیں ’’دریافت‘‘ کرنے ہائی وے پر کھڑے، آنے جانے والوں کے شناختی پریڈ میں مصروف ہیں۔ جیسے ہی اُن کی دسترس میں پہنچتے ہیں ویسے ہی ’’میرا سفر میری مرضی‘‘ والا دو رتمام اور ’’پنوں کا پِنڈ پنوں کی مرضی‘‘ والا کام آغاز پاتا ہے۔
ضلع سانگھڑ حُروں کی روحانی پیشوا پیر سید شاہ مردان شاہ ثانی کا مسکن ہے۔ انسانی آبادی کے تقابلی جائزہ میں یہ سوات کے جفا کش مرد و زن سے کافی پیچھے ہے۔ لگ بھگ 20 لاکھ نفوس میں 2 لاکھ ہندو برادری بھی شامل ہے۔ شہر سے کوئی 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ’’بقار جھیل‘‘ واقع ہے۔ اپنا طائفہ یہاں گھو م پھر کر راحت محسوس کرتا ہے، کشتیوں میں سیر کرتا ہے اور شکار کیے گئے پرندوں کے بُھنے گوشت سے منھ کا ذائقہ کڑوا کرتا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ جھیل کوئی 100 کلومیٹر احاطہ میں پھیلا 48 ہزار ایکڑ زرخیز پیداواری زمین ڈکار چکا ہے۔ مزید برآں اپنی حدودِ اربعہ سے تجاوز کرتے ہوئے مزید 100 کلومیٹر کے احاطے میں بے انتہا بگاڑ اور سیم و تھور کی بیماری پھیلا کر ہزاروں ایکڑ زمین کو بانجھ اور درجنوں گوٹھ ویراں کر چکا ہے۔
سانگھڑ میں رت جگا کرکے اگلے دن ’’مخ پہ قبلہ‘‘ (قبلہ کے اُور) نکلتے ہیں، لیکن کس وقت نکلتے ہیں؟ یہ اندازہ اس اَمر سے لگائیں کہ چھے عدد تیارخوروں کا ٹولا جب جاگتا ہو، تو دن کا پہلا پہر مسنون ہوا ہوتا ہو، پھر چھے میں سے چار اولوالعزم ’’خلقِ خدا‘‘ کا بے ترتیب ہجوم بڑی دریا دلی کے ساتھ نہانے کا موڈ بنا کے یکتا غسل خانے کے عین فرنٹ پر ڈیرا ڈالتا ہو، ’’اِلّا انجینئر شوکت علی شرار‘‘ اور ’’مشر‘‘حاضر گل۔ ازاں بعد، پورا گینگ بالوں کے بن ٹھن اور رخسار کے بھرپور ڈینٹنگ اور پینٹنگ میں مگن رہتا ہو، امابعد تین عدد شاہ جی حضرات یعنی گل داشوکت شرار جی، باچاافضل شاہ جی اور باچاافتخار حسین جی ناشتے کے دسترخوان پر کود پڑنے کو یوں منتظر رہتے ہوں، جیسے ہاڑ کی گرمی کا روزہ دار افطاری کا۔ اما بعد بھرپور ناشتے کے بعد آدھا قافلہ بڑے کروفر کے ساتھ سگریٹ سلگا کر اُس کے دُھویں کے مرغولے اُڑا اُڑا کرایک دوسرے کے نتھنوں میں پھونکنے کا ڈسپلے فرماتے ہوں، تو ایسے میں بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اوپر کے ذکر شدہ فرائض کے انجام دہی کے بعد قافلہ سانگھڑ سے تھرپارکر کی طرف کس وقت نکلا ہوگا اور اجنبی راستوں پر گھنٹوں بھٹکتے ہوئے کب کہاں پہنچا ہوگا؟
خیر، چلتے چلتے ایک ہم سفر کی جانب سے ایک ایسی جگہ وقفہ کرنے کا ’’کال اٹینشن نوٹس‘‘ آ جاتا ہے جس کو 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایک معرکہ گاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ 9 ستمبرکو یہاں کے مشہور قلعے میں حُر مجاہدین کا پہنچا جھمگٹا، جہاد پر جانے کے لیے اپنے پیشوا کے حکم کا بے قراری سے منتظر رہا تھا۔ جی ہاں، وہ تاریخی علاقہ یہی عمر کوٹ ہے۔ سلطنتِ مغلیہ کے تیسرے فرمان روا جلال الدین اکبر، اپنے دادو کی حمیدہ بیگم کے بطن سے یہاں پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں کہ اُس کی پیدائش کی خوشی میں اُن کے والد ہمایون اپنے واقفانِ حال میں مُشکِ نافہ تقسیم کرتا ہوابرملا کہتا تھاکہ جس طرح مُشک دور دور تک اپنے اطراف کو معطر کرتی ہے، اسی طرح اس بچے کی شہرت پورے جہاں میں پھیلے گی۔
مشکِ نافہ کے بارے میں بتا دیں کہ یہ نر ہرن کی ناف کے ساتھ پیوستہ تھیلی میں جما ہوا خون ہوتا ہے جو ایک لمبی مدت کے لیے گرمائش کے پراسیس سے گزرکر مشک بنتا ہے۔ ہرن جتنا زیادہ اُچھل کود کرتا ہے، اتنا زیادہ یہ نافہ پختہ ہو تاجاتا ہے اور اس کا مشک میلوں میلوں تک فضاؤں کومعطر کرتا ہے۔ اصلی ُمشک کی پہچان یہ ہے کہ یہ جلد میں فوری طور پر جذب ہو جاتا ہے۔
ہم یہاں کے ایک دیہہ کوندری میں اپنے ساتھی جمال خان کے رشتہ دارکے ہاں پہنچتے ہیں۔ چاند کے نام سے جانا جانے والا پینتیس سالہ سواتی نوجوان کا اپنا نام سیف الرحمان ہے جویہاں دو ڈھائی سو ایکڑ زمین پر کاشتکاری کرتا ہے۔ اس کے والد فوج میں ملازم تھے۔ چاند کاشتکاری کے علاوہ سُرخ مرچ کے خرید وفروخت کا ڈیلر بھی ہے۔ برخوردار چاند، مرچوں کی افادیت بارے بات کرتا ہے، تو دِل کرتا ہے کہ کرونا کے جاری وبا میں دنیا و مافیہا سے قطع تعلق کرکے آدمی کسی مرچی گودام میں چارپائی بچھا کر لیٹ جائے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
سچ ہے کہ علم کے حصول کے لیے گھومنا پھرنا ضروری ہے۔ یہاں آکر ہم نے جانا کہ یہ علاقہ ایشیا میں مرچ کی پیداوار کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ جغرافیائی بولی میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ براعظم ایشیا کے مرچوں کا ہیڈ کوارٹر عمر کوٹ ہے جو پاکستان کے صوبۂ سندھ میں واقع ہے۔ یہاں کا مرچ کوالٹی، ذائقہ اور کڑواہٹ کی وجہ سے پوری دُنیا میں ’’مطلوب‘‘ ہے۔
موسم مناسب ہو، تو ایک ایکڑ مرچ کی فصل دس لاکھ روپے تک آمدن دے سکتی ہے۔
ہمارے سوات کے کاشت کار تو خواہ مخواہ آڑو اور آلوچہ کے باغات کے پیچھے پڑے ہیں جن پر زہریلی ادویہ کا بے تحاشا سپرے ماحول کا الگ ستیا ناس کرتا ہے۔ ٹی بی اور کینسر کی صورت میں انسانی صحت کا الگ نقصان ہوتا ہے اور محاصل بھی کیا؟ وہی ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ والی بات۔
کہنے کو تو عمر کوٹ کو ایک پاکستانی ضلع کا مقام حاصل ہے جو چند بکھرے دیہات کا مجموعہ ہے۔ دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ شائد یہ اُس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ نہیں جہاں ہر سال اربوں روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتے ہیں۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
قافلہ، اپنے آخری پڑاؤ میں تھر پارکر کے ہیڈ کوارٹر مٹھی کے دیدار کو پہنچتا ہے، تو رات ڈھلنے کو ہوتی ہے۔ یہ شہر کبھی ’’مائی مٹھاں کا گوٹھ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مائی محترمہ نے ایک کنواں کھودا تھا جس کے میٹھے پانی سے یہاں کے باسی اور راہ چلتے قافلے مستفید ہوتے تھے۔
تھرپارکر کا دارلخلافہ ہونے کے ناتے یہاں کھلی ڈھلی سڑک، کوچے اور بازار ہیں، جہاں کاروبار کا پہیہ چلتا نظر آتا ہے، تاہم مجموعی طورپر بھوک، پیاس، افلاس اور وبائی امراض تھرپارکر بھر کی شناخت ہیں جس کی وجہ سے انسان، حیوان اور چرند پرند کا ہڈیوں کا ڈھانچا بن کر خدا واسطے مرنا تو بنتا ہے۔ ریاست کا خدائی معاملوں سے کیا واسطہ؟
قرائن بتاتے ہیں کہ یہاں کے مرد نہیں بلکہ خواتین بڑی جفاکش ہیں، جوسرکو پرانے کپڑے کی ’’تگڑی‘‘ کے ساتھ باندھے، کندھے پر درانتی رکھے یا ہاتھ میں کدال پکڑے کھیتوں کے وسط میں کام کرتے پائی جاتی ہیں یا پھر لاٹھی ہاتھ میں اور سر پر لکڑیوں کا گٹھا رکھے ڈھور ڈنگر کے پیچھے چلتی ہوئیں۔
یہ عجوبہ سن لیں کہ یہاں مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت میں ہیں۔ پونے دو لاکھ آبادی میں اپنے ہم مزاج بھائی پچاس ہزار سے بھی کم ہیں۔ تاہم دونوں حلقوں کے ’’اربابِ ذوق‘‘ ایک دوسرے کے مذہبی ذوق کے ساتھ کسی چھیڑ چھاڑ کے بغیربڑے تحمل مزاجی اور لاڈپیار کے ساتھ زندگی کی گاڑی کھینچ تو نہیں سکتے، البتہ ’’سٹینڈ سٹیل‘‘ کی کیفیت میں رکھتے ہیں۔ یہاں کے بازاروں میں تنومند حضرات خال خال اور تنومند گائیں بڑی تعداد میں صبح صبح نکلتی ہیں، ٹہلتی ہیں، چہل قدمی کرتی ہیں، سڑک کنارے بے فکری کے ساتھ آرام فرماتی ہیں یا کسی شیڈ کے سائے تلے اونگھتی ہیں، لیکن انسانی معاملات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رکھتیں۔
یہاں پر مسلمان گائے کو ذبح نہیں کرتے۔ ہندوؤں کے ساتھ اڑوس پڑوس میں رہنے والے مسلمانوں کو تو شہر سے باہر بھی کچھ کھانا پڑے تو روکھی سوکھی پر گزارہ کریں گے لیکن گائے کے گوشت کی طرف ہماری جیسی میلی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ مذہبی رواداری، بھائی چارے اور باہمی احترام کا اِس سے بہتر اور کیا نمونہ پیش کیا جا سکتاہے؟ یہاں وقتاً فوقتاً ریت کے خوفناک طوفان چلتے ہیں، جس سے پناہ حاصل کرنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
یہاں بھکاری کے علاوہ بھکارن بھی بڑے سج دھج کے ساتھ سیاحوں سے خیرات بٹورنے کے گر سے آشنا ہے۔ کوئی مہمان تب تک چھوڑنا نہیں جب تک کہ سو روپے کا کڑکڑاتا ہوا کرنسی نوٹ اس کے ہاتھوں تک پہنچا نہیں۔ پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر سینے پر سجاتے ہوئے بڑے ادب واحترام کے ساتھ ’’سلام ادا، سردارسائیں‘‘ بولا نہیں۔
بھوک غربت اور مہنگائی کی دلدل میں دھنسی جنتا کو ڈوب مرنے سے بچانے کے لیے مٹھی کے بھکاریوں کا ملکی مفاد میں فرض بنتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عوام کو اپنی برادری میں شامل کرکے اُن کو بھیک مانگنے کی جدت سے آشنا کر دیں ۔
بقولِ راحتؔ اندوری:
محبتوں کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا
یہ پلِ صراط اگر ہے تو چل کے دیکھوں گا
اجالے بانٹنے والوں پہ کیا گزرتی ہے
کسی چراغ کی مانند جل کے دیکھوں گا
عجب نہیں کہ وہی روشنی مجھے مل جائے
میں اپنے گھر سے کسی دن نکل کے دیکھوں گا
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔