چترال کا ’’شاہی قلعہ‘‘ کھوار قوم کی تہذیب و تمدن اور سلطنتِ چترال کی عظمت رفتہ کا امین ہے۔ یہ شمال کی طرف پاکستان کا آخری ضلع ہے۔ تاجکستان اور چترال کے درمیان 10 سے 12 میل لمبی واخان کی پٹی حائل ہے۔ کسی زمانے میں واخان کوریڈور کا یہ علاقہ بھی ریاستِ چترال کا حصہ تھا۔ یہ ایک آزاد ریاست تھی، جو سنہ 1585ء سے لے کر 1971ء میں جنرل یحییٰ خاں کی جانب سے اسے پاکستان کے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کا ایک ضلع قرار دینے تک تقریباً 4 سو سال تک قائم رہی۔ جس میں کٹور خاندان کی 321 سالہ دورِ حکومت والا نسبتاً بڑاحصہ قابلِ ذکر ہے۔
اس کی عزت و عظمت، کبریائی و جبروت اور جاہ و حشمت کی ایک بڑی نشانی چترال کا یہ شاہی قلعہ ہے۔ جو آج بھی اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ کھڑا اپنی عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتا دریائے کنڑ کے کنارے ایستادہ کھڑا نظر آتا ہے۔
دریائے کنڑ جو افغانستان کے صوبے کنڑ سے نکلتا ہے اور یہاں چترال میں آکر اسی شہر اور علاقے کی نسبت سے دریائے چترال کہلانے لگتا ہے۔ یہ ریاست چترال کا مرکزی قلعہ تھا۔ یہیں سے پورے چترال پر حکم رانی کے پروانے جاری ہوتے تھے۔ کھوار یہاں کی مقامی زبان ہے۔ یہاں کے حکم ران مہتر کہلاتے تھے، جنھیں مقامی زبان میں ’’میتار‘‘ جب کہ اُردو میں ’’مہتر‘‘ کہا جاتا تھا۔
چترال کا یہ مرکزی قلعہ پہلے ژانگ بازار میں ہوا کرتا تھا، مگر جنگ و جدل کے دنوں میں دریا سے تھوڑا ہٹ کر ہونے کی وجہ سے یہاں پانی کی کمی آڑے آتی تھی۔ اس لیے مہتر محمد شفیع نے 1701ء کے لگ بھگ ایک نئے قلعے کی تعمیر شروع کی۔ یہی وہ قلعہ ہے جو سنہ 1774ء میں نئے سرے سے دریائے چترال کے کنارے پر تعمیر کیا گیا۔ وقتاً فوقتاً اور حسبِ ضرورت اس میں کچھ تبدیلیاں اور اس کی توسیع ہوتی رہی ہے۔ سب سے بڑی توسیع مہتر شجاع الملک کے دور میں ہوئی۔ جو 1915ء میں اپنے پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ تاہم اس کا موجود صدر دروازہ مہتر ناصر الملک کے دور میں بنایا گیا تھا۔ مہتر امیر الملک کے کم ترین دورِ حکومت جو فقط دو ماہ پر محیط تھا، سے لے کر مہتر افضل ثانی کے 50 سالہ لمبے ترین دورِ حکومت تک چترال کا یہ مرکزی قلعہ 271 سال تک کٹور خاندان کی مختلف حکومتوں کا مرکز رہا۔ اس کی بنیادوں اور در و دیوار میں بجری اور سیمنٹ کی بجائے چونا، دال، انڈے، نمک اور بکری کے بال استعمال کیے گئے۔
کل صبح کے دامن میں ہم ہونگے نہ تم ہونگے
بس ریت کے سینے پر کچھ نقش قدم ہونگے
تاریخ کا دھارا بہتا رہتا ہے۔ یہ کبھی نہیں رُکتا۔ یہ جاتا جاتا اپنے پیچھے بہت سی نشانیاں چھوڑتا جاتا ہے۔ جو کچھ قوموں کے لیے سبق اور کچھ قوموں کے لیے عبرت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ جو قومیں وقت کی رفتار کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چلتیں، وہ بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ وقت اُنھیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر چپ چاپ آگے گزر جاتا ہے…… اور جو وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ دوڑ کر اپنی حیثیت اور اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں، وہی ’’سروائیو‘‘ کر پاتی ہیں۔ ورنہ مٹ جانا ہی اُن کا مقدر ٹھہرتا ہے اور زندہ قومیں انھی سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کی بنیاد رکھتی ہیں۔
پوری وادئی چترال میں جہاں جہاں بھی آسمانی بلندیوں کو چھوتے، سیکڑوں سال پرانے چنار کے درخت نظر آئیں، آپ سمجھ جائیں کہ یہاں مہترانِ چترال میں سے کسی کا کوئی گھر، کوئی تاریخی عمارت یا کوئی جاگیر ہے۔ کیوں کہ ایک شاہی حکم کے مطابق چنار کا درخت لگانا فقط شاہی خاندان کا استحقاق تھا۔ اس لیے یہاں پر بھی آسمانی بلندیوں کو چھوتے قریباً 4 سو سال پرانے چنار کے لمبے لمبے درخت ہیں، جو دور ہی سے دکھائی دیتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں دریا کنارے بھی مہترانِ چترال کی کوئی بڑی نشانی موجود ہے۔ شاہی قلعہ کی صورت میں اپنے جاہ و جلال کے رنگ بکھیرتی یہ نشانی مہترانِ چترال کی سب سے اہم نشانی ہے۔ کہتے ہیں کہ سطحِ سمندر سے تقریباً 5000 فٹ کی بلندی پر واقع چترال اور اس کی تاریخ، تاریخ کے طالب علم کو 1500 قبلِ مسیح سے بھی پیچھے تک گھسیٹ کر لے جاتی ہے۔ جب اس علاقے میں ’’اشرف المخلوقات‘‘ نے اپنا پہلا قدم رکھا ہوگا۔
مَیں پچھلے 25 سال کے عرصے میں تین چار مرتبہ یہ قلعہ دیکھنے چترال گیا، مگر ہر بار اس کا صدر دروازہ بند دیکھ کر مایوس لوٹا۔ جب بھی پوچھا، تو پتا چلا کہ قلعہ کے اندر شاہی خاندان رہایش پذیر ہے، جس کی وجہ سے اس قلعہ کے اندر داخلہ ممنوع ہے، مگر اس بار میرا جانا ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کے ساتھ ہوا تھا، جو ایسے موقعوں پر کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا کے کوئی رستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ اُنھوں نے ایک دو چار مقامی دوستوں سے بھی رابطہ کیا، مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ پا کر خود ہی اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش شروع کر دی، تو ہمیں یہ پتا چلا کہ اَب یہ قلعہ عام پبلک کے لیے بھی اوپن کر دیا گیا ہے۔
ایک بار پھر سے صدر دروازہ بند ملا، تو اِدھر اُدھر سے پتا کرنے پر پتا چلا کہ پامیر ریور سائیڈ ان ہوٹل چترال کی جانب سے عقبیٰ دروازے کے راستے اس قلعہ کے اندر تک رسائی ممکن ہے، مگر ایک شرط پر کہ سب سے پہلے قلعے کے اندر داخلے کے لیے جاری ایک ہزار روپے مالیت کا ایک ایک ٹکٹ فی بندہ لینا درکار ہوتا ہے ۔ جو اس گیٹ کے قریب واقع ہوٹل سے دستیاب ہیں۔
ہم گھوم کر اُس دروازے تک پہنچے، ٹکٹ لے کر قلعہ کے گیٹ پر موجود چوکی داروں کو دکھائے، جنھوں نے ہمیں تھوڑا انتظار کرنے کو کہا۔ ہم دریائے چترال کی طرف بنی قلعہ کی بالکونی میں جا بیٹھے، جہاں کچھ تاریخی توپیں پڑی ہیں۔ ان میں سے کچھ روسی ساختہ جب کہ کچھ انگریزی ساختہ ہیں۔ یہی توپیں سکردو میں موجود کھرپوچو قلعے کو فتح کرنے میں بھی کام آئی تھیں۔ جب 11 فروری 1947ء کو مہتر شجاع الملک کے بیٹے اور گورنر شغور میجر مطاع الملک نے اپنے چھے سو سپاہیوں سمیت برصغیر کی تاریخ کا طویل ترین محاصرہ کیا تھا، اور جو 14 اگست 1948ء تک یعنی چھے ماہ اور تین دن تک جاری رہ کر اس قلعہ کی فتح پر منتج ہوا تھا۔
خیر تھوڑی دیر بعد ہمیں ایک شخص لینے آیا، جس کا نام نامی ’’نشانِ حیدر‘‘ تھا، جو مہتر چترال کا سیکرٹری بھی تھا۔ وہ گائیڈ کے طور پر ہمیں پتھروں اور لکڑی کی مدد سے بنی ایک سیڑھی کے رستے اوپر والے حصے اور نچلے حصے کے مختلف حصوں میں لے کر گیا۔ ساتھ ساتھ اُن جگہوں کا تعارف اور اُن کی اہمیت بھی بتاتا گیا۔ قلعہ کا نچلا حصہ زیادہ تر خستہ حال تھا، جب کہ اُوپری حصہ نسبتاً نیا اور بہترین حالت میں موجود تھا۔ جسے آج سے تقریباً سو سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ اس عمارت کا اندرونی ماحول بڑا جاذبِ نظر اور دل کش تھا۔ دیواریں رنگوں کی ہولی کھیلتی دلکش و دلنشیں، جب کہ فرش قیمتی قالینوں سے ڈھکے تھے۔ اندرونی دیواروں کے ساتھ اور فرش پر مختلف اشیا ایک خاص ترتیب و ترکیب کے ساتھ ٹانگ کر اور سجا کر رکھی گئی تھیں۔ جن میں مارکو پولو شیپ، چیتا، بارہ سنگھا، اور ایرانی النسل گائے کے حنوط شدہ سر تھے، جنھیں دیوار کے ساتھ ٹانگ کر لگایا گیا تھا۔ شہزادہ ناصر الملک کے دور کا 100 سال پرانا فرنیچر، اُسی دور سے متعلقہ بجلی سے چلنے والے پنکھے، سوئچ اور بٹن تھے جو اَب بھی اپنی بہترین حالت میں کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف میڈلز اور کچھ تاریخی دستاویزات بھی تھیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد ریاستِ چترال نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ اپنے الحاق کا اعلان کیا۔ اُن دستاویزات میں سے کچھ پر شہزادہ مظفر الملک اور قائداعظم محمد علی جناح اور لارڈ ویول کے دستخط ثبت تھے۔ جب کہ کچھ توڑے دار بندوقیں، شاہی استعمال کے برتن، ایک قدِ آدم آئینہ، آرام دہ صوفوں کے علاوہ مختلف مہاتیران چترال کی تصاویر بھی دیواروں کے ساتھ آویزاں تھیں۔ کچھ ایسی تصاویر بھی نظر آئیں، جن میں اُس وقت کے مہتر اور اُن کی پوری کابینہ کے لوگ بھی دِکھائی دیتے تھے۔
قلعہ کے مغربی کونے میں 250 سال پرانا ایک ریٹھے کا درخت بھی دیکھنے کو ملا جو اَب تک ہرا بھرا اور پھل سے لدا ہوا تھا۔ پاس موجود ایک کمرے میں بنگالی ٹائیگر کی کھال لٹکائی گئی تھی۔
لواری ٹنل بننے سے چترال تک رسائی بہت آسان ہو گئی ہے۔ اَب تو فقط ایک دن میں لاہور، ملتان اور اُن سے ملحقہ علاقوں سے چل کر وہاں تک بآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ ورنہ اس کا زمینی رستہ سوائے چند ماہ تک کھلا رہنے کے اکثر بند رہتا تھا۔ وہ بھی ان دنوں تک محدود رہتا تھا جب لواری پاس کھلتا تھا۔ ورنہ چترال تک پہنچنے کے لیے یہاں سے بہ راستہ پشاور اور پھر افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ارندو کی طرف سے ہو کر چترال جایا جاتا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔