کبھی خواب نہ دیکھنا (قسطِ اول)

Riaz Masood

(فضل رازق شہابؔ صاحب کی انگریزی میں لکھی گئی خود نوشت "Never Ever Dream Again” کا اُردو ترجمہ، جسے لفظونہ ڈاٹ کام پر قسط وار شائع کیا جائے گا)
مَیں (فضل رازق شہابؔ) 5 اپریل 1943ء کو سیدو شریف کے افسر آباد میں نسبتاً ایک چھوٹے گھر میں پیدا ہوا، جہاں ریاست کے اعلا عہدے دار بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے تھے۔
میرے والد محمد عظیم مرزا صاحب ریاستی افواج کے ہیڈ کوارٹر میں کلرک تھے۔ یہ دفتر ایک سیکرٹریٹ کا حصہ تھا، جہاں زیادہ تر سول دفاتر واقع تھے۔ ان میں عدالتیں اور سوات کے حکم ران کا دفتر بھی شامل تھا۔ مَیں اپنی ماں کا دوسرا بیٹا تھا۔ میرا بڑا بھائی فضلِ وہاب مجھ سے چار سال بڑا تھا۔
میرے والد کی پہلی بیوی کی وفات ہیضے کی وبا میں اُس وقت ہوئی، جب میرے والد گھر سے دور تھے۔ وہ ریاستی فوج کے ساتھ، سندھ کوہستان پر قبضہ کرنے کے لیے پٹن (انڈس کوہستان) کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ اُنھوں نے اپنے پیچھے دو بچے چھوڑے، ایک لڑکا عبدالرازق، جسے شیر خان کَہ کے بلاتے تھے اور دوسری دو سال کی بیٹی۔
جب ریاستی فوج مہم سے واپس آئی، تو خوازہ خیلہ کے مقام پر اُن سب کو طبی ماہرین کی ایک برطانوی ٹیم نے ہیضے سے بچاو کے ٹیکے لگائے۔ واپسی پر میرے والد نے اپنا گھر اُجڑا ہوا پایا۔
میرے والد کی میری والدہ سے، تحصیل بری کوٹ میں درج ’’نکاح نامہ‘‘ کے مطابق، 1937ء میں شادی ہوئی، جس کی تصدیق اُس وقت کے تحصیل دار شیر محمد خان نے کی تھی۔ تب پہلی بیوی سے چھوٹی لڑکی فوت ہوچکی تھی اور لڑکا شیر خان ودودیہ ہائی سکول سیدو شریف میں زیرِ تعلیم تھا۔
مَیں شیر خان کے بارے میں چند باتیں لکھنا چاہوں گا۔ مَیں نے اُسے کبھی نہیں دیکھا، کیوں کہ جب وہ ممبئی چلا گیا، تو مَیں ڈیڑھ سال کی عمر کا تھا، لیکن اُس کے ہم جماعت اکثر اُس کے بارے میں بات کرتے تھے۔ وہ اُس کے پختہ کردار اور بہادری کی تعریف کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اُنھیں شیر خان کہا جاتا تھا۔ وہ ناقابلِ یقیں جملوں میں اُس کی خوب صورتی کا ذکر کرتے تھے۔ ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نے مجھے بتایا کہ کوئی بھی اُس کے چہرے کو چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ایک اور دوست نے کہا کہ اُنھیں ہوا کی خوش بو سے معلوم ہو جاتا کہ شیر خان کہاں ہوسکتا ہے۔ مجھے تو یہ سب کچھ ناول کی طرح لگتا ہے۔
شیر خان 6 نومبر 1944ء کو کسی کو بتائے بغیر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ میرے والد نے سوچا کہ شاید وہ بری کوٹ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں ’’ناٹ میرہ‘‘ گئے ہوں گے، جہاں اُن کے ماموں رہتے تھے، لیکن معلومات کرنے کے بعد یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ پندرہ دن کے بعد میرے والد کو ایک قریبی رشتے دار عبدالغفور کا خط موصول ہوا، جس میں میرے والد کو بتایا گیا کہ شیر خان بمبئی میں اُن کے پاس حفاظت سے پہنچ گیا ہے۔ یہ لوگ (زیادہ تر پٹھان) شہر کی کچی آبادیوں میں رہتے تھے، جسے سیوڑی کہتے تھے۔
میرے والد نے کچھ چین محسوس کیا، لیکن اُنھیں اطمینان نہیں تھا۔ وہ بہت صابر شخص تھے اور اگرچہ اندرونی طور پر بہت زیادہ بے چین تھے، لیکن وہ نارمل ظاہر ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ پھر وہ باقاعدگی سے ڈاک کے ذریعے خطوط کا تبادلہ کرتے رہے۔ شیر خان نے مختلف مصنوعات کے لیے ٹن پیک بنانے والی ایک کمپنی میں کوئی نوکری شروع کی۔ 1946-47ء میں تمام برصغیر میں اچانک فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا، جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے