جمہوریت اور سیاسی پارٹیاں لازم و ملزوم ہیں۔ کم از کم ایسا سمجھا جاتا آیا ہے، لیکن ایک عام آدمی کیا یہ سوال کر سکتا ہے یا اس نقطے کو زیرِ بحث لایا جاسکتا ہے کہ کیا جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے؟
جواب کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بحث بہت طویل اور پیچیدہ بھی ہوسکتی ہے۔ اس نقطے کو احمقانہ بھی کہا جاسکتا ہے، مگر یقینا ایک سوال کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً: سیاسی پارٹیوں سے مراد کیا ہے؟ اُصول، نظریات اور منشور کیا اشیا ہوتی ہیں اور کیا معنی رکھتی ہیں ؟
پولی ٹیکل سائنس کے ماہرین اور طالب علم جانتے ہیں کہ یہ کوئی نیا سوال نہیں، نہ یہ سوال آج ہی کا ہے، بل کہ یہ کئی سو سالوں سے موجود ہے۔
امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے 1796ء میں سیاسی پارٹیوں کو مکار اور سیاسی پارٹیوں کے اندر موجود غیر اصولی لوگوں کو عوام کی طاقت کو کم زور کرنے کی اجازت دینے کے مترادف قرار دیا تھا۔
اس پر بہت تنقید ہوئی، مگر اَب امریکہ میں کئی لوگ جارج واشنگٹن کی اس بات کو سراہتے ہیں۔ خصوصی طور پر ’’ٹرمپ‘‘ کے انتخابات میں حصہ لینے، انتخابات کے نتائج چیلنج کرنے اور کئی ’’ریپبلکن‘‘ اور ’’ڈیموکریٹ‘‘ اُمیدواروں کی جانب سے نتائج تسلیم نہ کرنے اور چیلنج کرنے پر جارج واشنگٹن کی بات کو اور وزن دیا جاتا ہے۔
امریکہ جس کو ہم ’’مہذب دنیا‘‘ کہتے ہیں، سکالر یونیورسٹیوں کے اندر اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ جماعتوں اور پیشہ ور سیاست دانوں کی کم مداخلت کے ساتھ زیادہ کھلی اور بہ راہِ راست جمہوریت کے تصور پر غور و خوض کیا جائے…… اور 2008ء کے معاشی بحران اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سنہ 2016ء میں صدر منتخب ہونے سمیت کئی دوسرے واقعات نے اس بحث کو اور وسعت بخش دی ہے۔
ٹرمپ نے اپوزیشن کو چور، غدار اور نجانے کیا کیا کہا۔ قومی حساس دستاویزات اپنی تحویل میں رکھے اور طویل مدتی حکم رانی کے خواب دیکھے۔
اگر ہم امریکہ کو ایک طرف رکھیں یا امریکی سِیاق و سباق میں اپنی جمہوریت، سیاسی پارٹیوں اور معروضی حالات کو دیکھیں، تو جارج واشنگٹن کی بات امریکہ پر لاگو ہو نہ ہو، پاکستان پر لاگو ہوتی ہی ہے۔
ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کا منشور انتخابات سے پہلے شائع ہوتا ہے، جس کو انتخابی منشور کہا جاتا ہے، جس پر نہ عمل ہوتا ہے، نہ عوام اس سے باخبر ہوتی ہے، نہ پارٹی کے اندر یا باہر منشور پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی کوئی بات ہی ہوتی ہے۔
ہاں! سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے اور نعرے یقینا ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ نظریات شخصیت پرستی کے گرد گھومتے ہیں، جو نفرت یا محبت کی بنیاد پر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں سو گناہ معاف ہوتے ہیں اور سو گنا لادے جاتے ہیں۔ نتیجتاً راتوں رات نئی پارٹیاں تشکیل پاتی ہیں اور اُن کو اقتدار میں حصے بھی مل جاتے ہیں۔
’’ایلکٹ ایبلز‘‘ کی اصطلاح بھی جمہوریت کی نفی ہے اور شخصی ووٹ بینک کا تصور بھی یہاں موجود ہے۔ پیرا شوٹ سے پارٹیوں میں اُترنے والے برے نہیں سمجھے جاتے اور پارٹی اُن کو شمولیت کے ساتھ ہی بھاری عہدے، منصب اور پارلیمان کے ٹکٹ دینے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتی ۔
اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ مختلف پارٹیوں کا حقیقی منشور اقتدار تک رسائی اور پھر اقتدار سے فوائد کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں۔
سیاسی پارٹیوں پر الیکشن کمیشن کا کوئی دباو نہیں ہوتا، نہ کوئی اصول ہی ہیں کہ پارٹی کے اندر انتخابات کو الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کرائے جائیں، یا کسی پارٹی عہدے کے لیے اہلیت کیا ہوگی؟ پارٹی کے پارلیمانی ٹکٹ کے لیے امیدوار کی اہلیت کیا ہوگی اور کتنی قربانیاں درکار ہوں گی؟
پارٹیوں سے عوام کی توقعات بھی عجیب ہیں۔ نوکری، ٹرانسفر ، ٹھیکے، سفارش، دباو، تھانا کچہری اور بس……!
تو ہم کسی بھی پارٹی کی تشکیل پر کیسے اعتراض کر سکتے ہیں، کسی کے پارٹی چھوڑنے پر کیسے معترض ہوسکتے ہیں؟
اگر تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہیں، سب کارپوریٹ کلچر پر چل رہی ہیں، سیاست کا ماخذ مادیت ہے، سیاسی جماعت ایک کارپوریشن ہے، تو کسی کی سیاسی وابستگی پر اعتراض کیوں کر کیا جاسکتا ہے!
اگر کوئی شخص ایک بینک میں ملازمت چھوڑ کر کسی دوسرے بینک میں چلا جاتا ہے، تو لوگ مبارک باد دیتے ہیں کہ اچھی تنخواہوں اور مراعات کے لیے تبدیلی کی وابستگی ختم کرکے کہیں اور کر لی ۔ کوئی پاکستان میں ملازمت چھوڑ کر سعودی عرب یا یورپ، امریکہ جاتا ہے، تو اس کے گھر کے آگے جلوس تو نہیں نکالے جاتے۔
تو پھر سیاست میں یہ پابندی کیوں ہے پاکستان کے اندر؟
آئیں! سب مل کر کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔