پچھلے ہفتے جہانزیب کالج کے کچھ طلبہ کے ساتھ ایک بہت ہی مفید نشست رہی۔ مَیں اُن پیارے بچوں کا از حد ممنون ہوں، جنھوں نے نہایت تحمل سے مجھے سنا اور میری ثقلِ سماعت سے درگزر کرتے رہے۔ گفت گو کے اختتام پر اُن کے چند مختصر سوالات پر بحث سمیٹتے ہوئے میری توجہ ایک نہایت اہم پہلو کی جانب مبذول ہوگئی کہ سوات کی اس عظیم درس گاہ نے عام معاشرے کے لیے کتنی اہم شخصیات کی پرداخت کی۔ مختصر لفظوں میں اس ادارے کے فارغ التحصیل افراد نے معاشرے میں، سیاست میں اور دوسرے شعبوں میں کیا اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے، تو یہ بھی تحقیق کے میدان میں ایک اہم موضوع بن سکتا ہے اور اس پر الگ ایک مکمل اور مفصل تحقیق ہونی چاہیے۔
کالج کے ذمے داران اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ اس پر توجہ مرکز کریں اور تحقیقی موضوعات میں اسے ایک آپشن کے طور پر طلبہ کو ترغیب دیں۔ مثال کے طور پر یہ ذیلی موضوعات مفید رہیں گے۔ جہانزیب کالج سے فارغ التحصیل طلبہ نے درجِ ذیل شعبہ جاتِ زندگی میں کون سے نام ور افراد متعارف کروائے:
1:۔سیاست۔
2:۔تعلیم۔
3:۔صحت۔
4:۔کوئی بھی شعبہ جاتی مہارت۔
5:۔سول/ فوجی بیوروکریسی۔
6:۔انجینئرنگ۔
اُسی روز مَیں نے جہانزیب کالج کے ایک طالب علم ’’انجینئر اسفندیار‘‘ کے بارے میں ایک پوسٹ کی تھی، تو سرِ دست وہی اُن کو بتایا اور پھر کچھ مزید شعبوں کے بارے میں بحث ہوئی۔ مگر جیسا کہ وقت بھی محدود تھا اور مَیں جسمانی عوارض کے سبب تھکن محسوس کر رہاتھا۔ پھر میرا کالج کا دورانیہ بھی صرف 3 سال تک محدود رہا تھا، تو پھربھی بعض شعبوں مثلاً طب، تعلیم، سیاست، پولیس وغیرہ میں بعض افراد کا مختصر ذکر کیا گیا۔
اب موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان سطور کے ذریعے مَیں جہان زیب کالج کے بعض شعبہ جات کے بارے میں اپنی معلومات شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارے وقتوں میں یعنی مئی 1958ء سے جون 1961ء تک کالج لائبریری آخری منزل کے جنوبی ونگ میں قائم تھی۔ سارے کمروں میں کئی بڑی بڑی الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی قطار اندر قطار ایستادہ تھیں۔ اُس منزل کے سامنے کوئی 10 فٹ چوڑا برآمدا تھا۔ والی صاحب نے اسے ’’ریڈنگ ہال‘‘ میں کنورٹ کردیا۔ اس میں شیشہ دار بڑی بڑی کھڑکیاں نصب کروادیں۔
اُن دنوں کالج کو روزانہ کی بنیاد پر انگریزی اور اُردو کے تمام لیڈنگ اخبارات فراہم کیے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ ’’ٹائمز نیویارک‘‘، ’’نیوز ویک‘‘ اور’’السٹریٹڈ ویکلی‘‘ ریڈنگ روم میں موجود ہوا کرتے تھے۔ مَیں کتابوں کا کیڑا تھا۔ میرے لائبریری کارڈ کے اندر والے صفحات کئی بار تبدیل ہوتے رہے۔
مذکورہ لائبریری کا طرۂ امتیاز ’’انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا‘‘ اور ’’انسائیکلوپیڈیا امریکانہ‘‘ کی مکمل جلدیں ہر وقت مطالعہ اور حوالہ جات کے لیے کھلے رہا کرتیں۔ مذکورہ دونوں انسائیکلوپیڈیاز والئی سوات نے اپنی ذاتی لائبریری سے عطیہ کیے تھے۔
ہمارے وقتوں میں جناب خورشید جہاں صاحب لائبریرین تھے۔ اُن کے بعد میرے ایک ہم جماعت ارسلا خان نائب لائبریرین بن گئے۔ ایک اور صاحب عبدالشکور خان مختصر عرصے کے لیے لائبریرین تھے۔ شکور خان کا تعلق چکیسر سے تھا۔ بعد میں اُن کو والئی سوات نے پولیس ٹریننگ کے لیے سہالہ پولیس اکیڈمی بھیج دیا۔ بعد میں موصوف ’’ایس ایس پی‘‘ کے رینک سے ریٹائر ہوئے۔
جہان زیب کالج کا ایک اور خصوصی امتیاز اس کا اپنا ’’بوٹانیکل گارڈن‘‘ تھا، جو کالج کینٹین کے بالمقابل سڑک کے دوسری جانب تھا۔ اس گارڈن میں سیکڑوں اقسام کے پودے، پھول اور درخت تھے۔ بیالوجی کا شعبہ پروفیسر شاہ دوران خان اور ایک مفتی صاحب پر مشتمل تھا۔ ایک مختصر سی جسامت کا نان سواتی لیبارٹریرین (Laboratorian) تھے، جن کو طلبہ ’’کوٹنجن‘‘ بولتے تھے۔ پری میڈیکل کے طلبہ کے لیے اس نباتاتی جنگل میں مینڈک بھی بہت ملتے تھے۔
ایک ’’لیبارٹری اٹنڈنٹ‘‘ تھا ’’شہزادہ نامی‘‘۔ وہ نہ صرف روزمرہ کئی تجربات میں اور سالانہ امتحان میں لڑکوں کی مدد کرتا تھا۔ اُس نے بہت کچھ سیکھا بھی تھا اور سالانہ ایگزام کے پریکٹیکل میں طلبہ کے بہت کام آتا تھا۔ لڑکے بھی خوش ہوکر تھوڑا بہت دان دیا کرتے تھے۔
’’بوٹانیکل گارڈن‘‘ وقت کے ساتھ ساتھ بہت گھنا ہوگیا تھا۔ اُس سے ذرا فاصلے پر ایک دومنزلہ ’’واٹر ریزروائر‘‘ تھا اور ذرا آگے کالج کا ’’گیسٹ ہاؤس‘‘ تھا۔ اُس گیسٹ ہاؤس کا مقصد باہر سے آئے ہوئے ایگزامنروں کو پُرآسائش قیام مہیا کرنا تھا۔ اُس میں ایک کچن بھی تھا۔
کالج کے ساتھ ابتدا میں ایک ہاسٹل جس کو ’’سیدو ہاسٹل‘‘ کہتے تھے، تعمیر کیا گیا تھا۔ اُس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ برِاعظم ایشیا میں اپنی نوعیت کا واحد ہاسٹل تھا، جس کے ہر کمرے کے ساتھ غسل خانہ بنا ہوا تھا۔ اس میں ایک بڑا ڈائننگ ہال اور کامن روم بھی ہے۔
دوسرا بہت بڑا سہ منزلہ ہاسٹل گراسی گراؤنڈ کے قریب تعمیر کیا گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’’سٹار ہاسٹل‘‘ تھا۔ بعد میں اُسے ’’مینگورہ ہاسٹل‘‘ کا نام دیا گیا۔ مذکورہ ہاسٹل کی آخری منزل ’’کیوبیکلز‘‘ پر مشتمل تھی۔ ہر ’’کیوبیکل‘‘ میں صرف ایک طالب علم رہ سکتا تھا۔ مذکورہ کیوبیکلز کالج کے ذہین طلبہ کے لیے مخصوص تھے ۔
جہان زیب کالج کے امتیازات میں سے سب سے اہم اس کی سہولیات میں ریاستی دور میں وقتاً فوقتاً پیش رفت ہوتی رہی۔ سب سے پہلے رہایشی عمارات کا ذکر کرتے ہیں۔
کالج کے تعمیر کے دوران میں سٹاف کے لیے بنگلوں کی تعمیر پر کام جاری رہا۔ پہلے مرحلے میں جو 9 بنگلے تعمیر ہوئے یہ بہت ہی خوب صورت اور تمام سہولتوں سے آراستہ تھے۔ ان میں خاص طور پر "French Windows” لگائے گئے تھے، جو بڑے دیدہ زیب تھے۔ رہایشی بلاک ’’کالج کالونی‘‘ کہلایا جانے لگا۔ اس کی گنجایش میں وقتاً فوقتاً، بل کہ مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اس طرح کالونی میں کل 57 بنگلے تعمیر ہوگئے۔ لوور سٹاف کے لیے بھی کئی کوارٹر بنائے گئے۔ کالونی کی گلیاں چوڑی اور پختہ سڑکوں پر مشتمل ہیں۔ ریاستی دور میں کالج کالونی نہایت پُرسکون ہوا کرتی تھی۔ اس میں بچوں کے لیے ایک خصوصی پارک بھی بنایا گیا تھا جسے ’’چلڈرن پارک‘‘ کہا جاتا تھا۔ سنا ہے آج کل کالونی کا وہ سنجیدہ ماحول بہت سوقیانہ سرگرمیوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔
کالج کی بڑھتی ہوئی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کالج کے بالمقابل ایک شان دار سائنس بلاک اور ودودیہ ہال ریاستی دور کی عظمت کے نشان ہیں۔ اس کے علاوہ کالج کالونی کے لیے ایک نہایت خوب صورت مگر سادگی کا نمونہ مسجد تعمیر کروائی گئی، جو اس کالج کا طرۂ امتیاز ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔