میرے مرحوم والد محمد عظیم مرزا اور میرے چچا شاہزاللہ اپنے باپ حبیب اللہ کے سائے سے بہت کم عمری میں محروم ہوگئے۔وہ اتنے کم عمر بچے تھے کہ اُن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کے والد کیوں اور کہاں جان کی بازی ہار گئے؟ یہ بات اُن کو بہت بعد میں معلوم ہوئی۔ میرے بابا نے پھر ہم کو اپنی یتیمی کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ اقوام سولیزی اور بابوزی کے درمیان ’’پختو دور‘‘ کی یہ آخری بڑی لڑائی تھی، جو منگلور کے آس پاس سنگوٹہ کے زیتونوں والے جھنڈ میں لڑی گئی تھی۔ اُسی جنگ میں میرے دادا ایک موٹے سائز کے کارتوس والے بندوق کا نشانہ بنے، جس کو مقامی زبان میں ’’پیتے ٹوپک‘‘ کہا جاتا ہے۔ شام کے وقت لوگ اُن کی لاش چارپائی پر ڈال کر گاؤں لے آئے۔معصوم بچوں کو صرف اپنی والدہ کا سہارا تھا۔اُن کے تربور (چچا زاد) اُن کی جان کے درپے ہوگئے، مگر خدا نے اُن کو بچائے رکھا۔ میرے دادا کو کرکنڑئی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
مجھے یاد ہے جب مَیں بابا کے ساتھ بریکوٹ تک تانگے میں آتا اور ہم دونوں وہاں سے پیدل گاؤں آتے، تو کرکنڑئی قبرستان کے بیچ گزرنے والے راستے میں ایک قبر کے قریب ہم کچھ دیر کے لیے رُک جاتے اور وہاں فاتحہ پڑھتے۔ تمام اہل القبور کے لیے خدا سے مغفرت مانگتے۔ بابا نے بتایا یہ اُن کے والد کی قبر ہے۔
میری دادی بڑی رحم دل خاتون تھی۔ اپنے محدود وسائل میں ایک دو بیواؤں کی مستقل سرپرستی کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح اُن کے بیٹے ’’تربوروں‘‘ سے بچ بچا کر جوان ہوجائیں۔ میرے چچا بہت سادہ سے بچے تھے۔ اُن کی دل چسپی صرف گائے پالنے اور چارا لانے تک محدود تھی، مگر میرے والد ذہین اور صاف ستھرا رہنے والے بچے تھے۔ دادی بڑی باہمت خاتون تھیں۔
ہمارے گاؤں کا ایک شخص افیون کی سمگلنگ کرتا تھا اور دلی (ہندوستان) تک اس کی پہنچ تھی۔ میری دادی کے پاس صرف 14 روپے تھے۔ یہ اُس زمانے میں بڑی رقم تھی۔ اُنھوں نے میرے والد کی قمیص کے اندر کی طرف وہ رقم ایک تھیلی میں سی کر رکھ دی۔ خود اس کو لے کر درگئی تک لے گئی اور ریل میں سوار کراکر واپس آگئی۔ وہ افیون کا سمگلر وہیں پر بابا سے مل گئے۔ دہلی پہنچ کر والد کو ایک مدرسے میں داخل کرایا۔ اُن دنوں سوات کی ریاست ابھی نہیں بنی تھی۔
دہلی میں والد کو ایک اور سرپرست مل گئے۔یہ تھے احمد حسن سیر تلیگرام کے رہنے والے ایک عالم فاضل شخص، جن کا دہلی میں اپنا پرنٹنگ پریس بھی تھا۔ یہ صاحب بعد میں ودودیہ سکول میں ہمیں اُردو اور فارسی پڑھاتے رہے اور شیخ سعدی کے لقب سے مشہور تھے۔ میرے بابا نے اردو اور فارسی کے علاوہ ابتدائی ریاضی سیکھ لی۔جب وہ واپس آئے، تو کچھ عرصہ بعد سوات میں سید عبدالجبار شاہ کی حکومت بنی تھی، جو صرف دریائے سوات کے دائیں کنارے تک محدود تھی۔
بابا نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ اپنی ایک بزرگ خاتون کے ساتھ بریکوٹ سے آرہے تھے، تو زمان خیلوں کی مسجد میں اُنھوں نے عبدالجبار شاہ کو دیکھا تھا۔ جو بریکوٹ کے خوانین کی حمایت حاصل کرنے آئے تھے، مگر کام یاب نہ ہوسکے تھے۔ بعد میں جب بادشاہ صاحب میاں گل عبد الودود کی حکومت بنی تھی۔ جب ادین زئی کا علاقہ سوات کے قبضے میں آیا، تو گوڑہ گٹ کے مقام پر ایک چک پوسٹ میں بابا نے پہلی ملازمت کا آغاز کیا۔ اس دوران میں وہ شموزو کے کامران ملک کے حجرے میں قیام پذیر تھے۔ بعد میں بابا قلعہ کوٹہ میں بہ طور مرزا ڈیوٹی دینے لگے۔ بعض وجوہات کی بنا پر بابا کو بادشاہ صاحب نے سیدو شریف بلایا۔ یہ 1929ء کی بات ہے۔
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بابا کی پہلی شادی 1928ء میں ہوئی تھی۔ وہ بریکوٹ کی نواحی بستی ناٹ میرہ کی رہنے والی تھی۔ اُن کے بھائیوں کے کچھ نام اور صورتیں مجھے یاد ہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنی بہن کے انتقال کے کئی سال بعد بھی ہمارے ہاں آتے رہے۔یہ لمبے اور چھریرے بدن کے محنت کش لوگ تھے۔ رحیم داد، کریم داد، ابراہیم…… بس یہی نام مجھے یاد ہیں۔
پہلی بیوی سے بابا کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، جن کے نام عبدالرازق عرف شیر اور عبدالعزیز عرف کاکوڑے تھے، جب کہ ایک شیر خوار بچی تھی جس کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں۔
میرے والد اور چچا ریاستی لشکر کے ساتھ پٹن کوہستان گئے تھے۔ لڑائی کا دور گزر چکا تھا۔ فوجی جس علاقے سے گزرتے، وہاں ٹیلی فون کی تاریں لکڑی کے کھمبوں پر پھیلاتے تھے۔ اسی طرح یہ پٹن تک پہنچ گئے۔ یہ اُسی سال کی بات ہے جب سوات میں ہیضہ کی وبا پھیل گئی تھی۔ انگریزی حکام کی رپورٹ کے مطابق اس وبا میں اگرچہ ڈھیر سارے لوگ متاثر ہوئے تھے، مگر اموات 26 یا 27 کے لگ بھگ ہوئی تھیں۔ اسی رپورٹ میں ہمارے گاؤں ابوہا میں دو اموات کا ذکر ہے۔ یہ میرے بابا کی پہلی بیوی اور بیٹا عبدالعزیز عرف کاکوڑے تھے۔ شیر کو اللہ نے محفوظ رکھا اور وہ شیر خوار بچی بھی محفوظ رہی۔
بابا جب لشکر کے ساتھ واپس آرہے تھے، تو اُن کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اُن کا آشیانہ بکھر چکا ہے۔خوازہ خیلہ کے مقام پر برطانوی میڈیکل کور کے عملے نے سب کو ہیضہ کے ٹیکے لگوائے۔
بابا شام کے وقت گھر پہنچے، تو گھر کو تالا لگا ہوا تھا۔ لال میاں اُن کو اپنے گھر لے گئے۔ شام کا وقت تھا۔ بابا کا خیال تھا کہ ابھی اُن کی بیوی سامنے آجائے گی۔ کافی دیر ہوچلی تھی، تو بابا نے پوچھ لیا: ’’پاچا! شیر کی ماں کہاں ہے؟‘‘ تب اُنھوں نے اُن کو بتایا۔ والد صبر و رضا کے پیکر تھے۔ خدا کے کیے پر صبر کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ جو بچی رہ گئی تھی، اُسے سینے سے لگا کر لیٹ گئے۔
میرے بابا کی ایک خالہ تھی۔ حافظِ قرآن، بی بی زہرہ نام تھا۔ جب وہ 4 سال کی تھی، تو چیچک کی وبا پھیل گئی۔ اس کے سارے جسم پر یہاں تک کہ آنکھوں کے اندر دانے نکل آئے۔ موت سے تو بچ گئی مگر آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوگئی۔ اللہ نے حافظہ بخشا، تو مکمل قرآنِ مجید حفظ کیا۔ ہر وقت زبان پر قرآنی آیات جاری رہتیں۔ بابا اُن کو اور شیر خان اور بچی کو لے کر سیدو شریف آگئے اور افسر آباد کے سرکاری گھر میں رہنے لگے۔ شیر خان سکول پڑھنے لگ گئے تھے۔ ایک دن وہ آنکھوں سے معذور خالہ آگ روش کر رہی تھی کہ اُس ننھی بچی کے دامن میں آگ لگ گئی۔ بابا دفتر میں تھے۔وہ بچی جل کر دم توڑ چکی تھی۔ پڑوس کے لوگ چیخ و پکار سن کر آگئے، مگر قصہ ختم ہوچکا تھا۔ بابا گھر آگئے اور پڑوس میں رہنے والے گوگدرہ کے جانس پاچا کمان افسر کو بتایا کہ وہ بچی کی لاش گاؤں لے جانا چاہتے ہیں۔ جانس پاچا نے اپنا ذاتی تانگہ تیار کروایا اور بچی کو گاؤں لاکر اپنی ہی زمین کے کنارے دفن کردیا۔ اب بابا، شیر خان اور بابا کی حافظِ قرآن آنکھوں سے معذور خالہ، جس کو ہم بعد میں ’’ببو‘‘ کہتے تھے۔
بابا کی دوسری شادی ایک ریاستی دستاویز کے مطابق 1937ء میں ہوئی۔ یہ نکاح نامہ جس پر اُس وقت کے تحصیل دار بری کوٹ ’’شیر محمد خان‘‘ کے دستخط ہیں، ہمارے مختلف تمسکات میں اب بھی موجود ہے۔ شیر محمد خان بعد میں ترقی پاتے پاتے وزیرِ مال بن گئے اور کئی سال بعد بہت ضعیف العمری میں ریٹائر ہوگئے۔ یاد رہے کہ پروٹوکول کے لحاظ سے وزیرِ مال پہلے نمبر پر آتے تھے۔اسی نمبر پر چیف سیکریٹری، سپہ سالار اور وزیر ملک بھی آتے تھے۔
میری والدہ ہمارے گاؤں کے اخوندخیل میاں گان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کے والد لال میاں اُس زمانے کے جانے مانے شخص تھے۔ مہم جویانہ زندگی کے عادی تھے۔ اکثر قریبی دیہات جانگیر، نری بنڈ اور بنجیر وغیرہ میں شکار کے لیے جاتے تھے اورکئی دن کیمپ لگا کر رہتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے ایک موچی حاجی صاحب بتاتے تھے کہ وہ اور کئی دوسرے لڑکے اُن کے ساتھ ہنکارے کے بہانے جاتے اور خوب مزے مزے کے کھانے کھاتے تھے۔
میرے نانا کا ایک ہی بیٹا تھا امیر محمد باچا، جن کی شادی گورتئی کے صاحب زادگان میں سے ہوگئی تھی۔ میری والدہ اور شیر خان افسر آباد سیدو شریف میں رہنے لگے۔ شیر خان (عبدالرازق) ودودیہ سکول میں پڑھتے تھے۔ بابا ریاست کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں واقع دفتر میں کام کرتے تھے۔اُن کا کام بڑا محنت طلب اور ہر وقت مصروف رکھنے والا تھا۔ اُن کو دفتری اوقات میں سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ملتی تھی۔ ریاست کی فوج لگ بھگ 10 ہزار افراد پرمشتمل تھی۔ اس کے ہر فرد، سپاہی سے لے کر کمان افسر تک کا ریکارڈ رکھنا بابا کی ذمے داری تھی۔ ان تمام افراد کو ادائی، جنس کی شکل میں کی جاتی تھی۔ جن کے تحریری حکم ناے میرے والد کے قلم سے نکلتے تھے۔ اُن پر پہلے وقتوں میں میاں گل جہان زیب بہ حیثیت سربراہ فوج اور بعد میں بہ طور حکم ران سوات دستخط کرتے۔فوج کا ریکارڈ یوں رکھا جاتا تھا کہ ہر کمان افسر (بعد میں کپتان) کے لیے الگ الگ رجسٹر مختص تھے۔ مثلاً افسری جانس پاچا، افسری بیاکند خان، افسری امیر دوست خان، افسری عبدالرازق خان وغیرہ وغیرہ۔
میرا پہلا بھائی 1939ء میں پیدا ہوا۔ بابا نے اُس کا نام فضل وہاب رکھا۔ میری پیدایش 1943ء میں 5 اپریل کو ہوئی۔ مَیں ابھی ڈیڑھ سال کا تھا کہ عبدالرازق عرف شیر خان کسی بدخواہ کے بہکاوے یا کسی اپنے کے بہلاوے میں آکر گھر سے بھاگ گیا۔ وہ بہت خوش شکل تھا۔ کئی سال بعد بھی ہمیں لوگ اُس کی افسانوی خوب صورتی کی کہانیاں سناتے تھے۔ بابا کو اُس کے یوں جانے کا بہت بڑا صدمہ پہنچا۔ جب بمبئی سے اُس کے بارے میں اطلاع ملی، تو بابا کسی حد تک مطمئن ہوگئے۔
اب آتے ہیں پھر بابا کے دفتر کی جانب۔ بابا کی میز پر پڑے ضخیم رجسٹروں کے اندراجات سے مجھے بہت دل چسپی تھی۔ جب مَیں پڑھنے کے قابل ہوا، تو اُن کی اِفادیت کا ادراک ہوا۔ رجسٹر کے کالم یا پروفرما اس طرح تھے:
نمبر شمار، نام ولدیت، عہدہ، قومیت، حلیہ، قسم اسلحہ مع کارتوس، کیفیت۔
بابا کے جو ’’امیجیٹ باس‘‘(Immediate Boss) تھے، اُن کا نام فہم جان کمان افسر تھا، جو بعد میں دوسرے کمان افسروں کی طرح ’’کپتان‘‘ کہلائے جانے لگے۔ اس آدمی کا تعلق کبل کے ایک نواحی گاؤں ’’گاڑو‘‘ سے تھا۔ وہ والئی سوات کی رہایش گاہ کے عقب میں عبدالرازق کمان افسر کے پڑوس میں رہتا تھا۔ یہ سب مجھے اس لیے معلوم ہوا کہ عبدالرازق خان کا بیٹا باور خان (جس نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے حیدر علی رکھا) میرا کلاس فیلو تھا۔
بابا کے جو ’’امیجیٹ آفیسر‘‘ (Immediate Officer) تھے۔ وہ مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے تھے۔ مجھے وہ بہت "Snobbish” لگتے تھے۔یہ الفاظ مجھے اُس وقت سمجھ نہیں آتے تھے، اب اُس کا رویہ یاد آتا ہے، تو ان الفاظ کے ساتھ "Arrogant” اور کسی کمپلیکس میں مبتلا۔ دو گھوڑا بوسکی کی قمیص اور 16000 لٹھا کی شغ شغ کرتی شلوار، بائیں ہاتھ کی انگلی میں سونے کی موٹی انگھوٹی اور ایک دانت پر سونے کی پتری چڑھائے، وہ بہت اچھا آدمی ہوگا اور عزت کا مستحق بھی ہوگا، مگر میرے ننھے دماغ میں اُس کا تاثر یہی بنا تھا جو بیان کیا۔
حالاں کہ مَیں نے کبھی بابا کو اس کے ساتھ کام کرتے ہوئے کسی دباو میں محسوس نہیں کیا۔
یار زندہ صحبت باقی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔