اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ چھے ہزار فٹ بلند پہاڑی پر چڑھنا آسان ہے یا کسی سول ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کرنا؟ تو مَیں بلا جھجک پہاڑی پر چڑھنے کو ترجیح دوں گا…… لیکن کسی بھی صورت کسی سول ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات نہیں کروں گا۔ کیوں کہ اُن سے ملنے کے لیے جو خوار ہونا پڑتا ہے اور جو انتظار کرنا پڑتا ہے، وہ کسی بھی بلند و بالا پہاڑ پر چڑھنے سے زیادہ دشوار ہے…… لیکن انسان مجبور ہوتا ہے، تبھی اُن کے پاس جانا پڑتا ہے۔
عام آدمی تو کیا، وکیل حضرات بھی ان کے دفتروں کے باہر پسینے میں شرابور انتظار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں کسی افسر سے ملنا ایک قیامت خیز مرحلہ ہوتا ہے۔ اس ملک میں اس وقت دنیا کا سب سے دقیانوسی نظام رائج ہے۔ جب تک عوام اور افسران کے درمیان ملاقات کا طریقۂ کار آسان اور سہل نہیں بنایا جاتا، تب تک پاکستان میں قانون کی بالادستی ممکن نہیں اور عوام کا قانون اور اداروں سے لگاو پیدا نہیں ہوسکتا۔ نفرت کی بہ جائے محبت کا رشتہ تبھی قائم ہو سکتا ہے، جب ہم تشدد اور انتہا پسندی کی بہ جائے پپرامن طریقے سے معاملات کو حل کرنے کا سوچیں۔
قارئین! ہم آئے دن سنتے ہیں کہ ایک بھائی نے اپنے چار بھائیوں کو قتل کر دیا، یا کسی شخص نے فُلاں پر چاقو سے حملہ کیا، یا زمین کے تنازع پر پورا خاندان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کیا عوامل ہوتے ہیں؟ کیا چیز لوگوں کو ایسے قدم اُٹھانے پر مجبور کرتی ہے ؟ وہ یہ کہ لوگ ان افسران کے انصاف پہ یقین نہیں رکھتے۔ اگر کسی ملک میں افسر سے ملاقات ایک شرف سمجھا جائے، تو وہاں کون انصاف پہ یقین کرے گا؟ لوگ متبادل رستے ڈھونڈتے ہیں۔ اپنے ہی دم پہ معاملات سلجھاتے ہیں جس کا نتیجہ اکثر خون خرابے کی صورت میں نکلتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں جب کسی کو مسئلہ درپیش ہوتا ہے یا اُس کا حق تلف کیا جاتا ہے، تو وہ سب سے پہلے کہتے ہیں "See You In the Court.” وہ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ کیوں کہ اُنھیں یقین ہوتا ہے کہ اُنھیں عدالت سے انصاف ملے گا۔ وہ "Red-Tapism” (سرخ فیتہ) کا شکار نہیں ہوں گے اور اُنھیں طویل انتظار کی اذیت سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں جب کسی کو مسئلہ ہوتا ہے، یا زیادتی کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ قانونی نوٹس بھیجتے ہیں۔ وہاں قانونی نوٹس بندوق کی گولی سے زیادہ خوف ناک سمجھا جاتا ہے، جب کہ یہاں قانونی نوٹس کو کوئی جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھتا۔
اگر یہی صورتِ حال جاری رہی، تو انتہا پسندی اس ملک میں ایک کلچر بن جائے گی۔
قارئین! آج مَیں نے چار گھنٹے انتظار کیا، نماز قضا ہوگئی، کھانا بھی نہ کھاسکا اور متعلقہ افسر آرام سے یوں نکل گیا، جیسے کہ کسی کے انتظار یا مصیبت کی اُسے کوئی پروا نہ ہو۔
اللہ گواہ ہے، جب دور دراز علاقوں سے لوگ مینگورہ آتے ہیں، تو چپراسی سے لے کر کمشنر تک اُنھیں انتظار اور ’’سرخ فیتے‘‘ کے ذریعے ذلیل کیا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے ڈی سی آفس کے باہر ایک دن گزارا ہو، تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کتنے ضعیف العمر لوگ وہاں انتظار میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ مسئلہ حل ہونا تو دور کی بات، اُنھیں صرف سراب کی طرح امید دلائی جاتی ہے۔
یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پچھلے 11 سال سے مَیں نے تبدیلی کی حکومت کو اِس اُمید پر سپورٹ کیا کہ ہمارے صوبے میں تبدیلی آئے گی۔ یہاں افسر شاہانہ کلچر ختم ہوگا۔ زمین کے تنازعات پر قتل و غارت بند ہو گی اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی…… لیکن افسوس، یہ تبدیلی ایک سراب ثابت ہوئی۔ مجھے ایک فی صد بھی تبدیلی دکھا دیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں دکھا سکیں گے۔
پچھلے دنوں مَیں نے پڑھا تھا کہ وزیرِ اعلا نے تمام سول افسران کو عوام کے لیے دروازے کھلے رکھنے کی ہدایت کی ہے، لیکن کیا یہاں کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نے ان کے حکم پر عمل درآمد کروایا ہے؟ کیا مقامی ایم پی اے نے تحصیل میں ایک ادنا آفیسر کے دفتر کے باہر جم غفیر سے یہ پوچھنا گوارا کیا ہے کہ آپ کتنے وقت سے یہاں انتظار میں کھڑے ہیں؟
سابقہ ڈپٹی کمشنر سوات ’’جنید خان صاحب‘‘ کا وقت بہت یاد آتا ہے۔ وہ ایک کمال کا بندہ تھا۔ ایک افسر میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں، وہ سب اُس میں موجود تھیں۔ جب ہم کسی سرکاری اہل کار کو یہ دھمکی دیتے کہ یہ کام کریں، ورنہ جنید خان صاحب کو بتادیں گے، تو وہ کانپ جاتا۔ کیوں کہ اُسے معلوم ہوتا کہ وہ کسی بھی صورت اُصول نہیں توڑیں گے۔ وہ کمپرومائز نہیں کریں گے۔ وہ اپنے کمرے میں ہر خاص و عام کو بٹھاتے اور زیادہ تر مسائل ایک ہی ملاقات میں حل کر دیتے۔ لوگوں کو چکروں میں نہ اُلجھاتے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سوات ایک تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ ہم نے کئی بار امیدیں باندھیں کہ تبدیلی آئے گی، لیکن افسوس، تبدیلی نامی کی کوئی چیز یہاں نظر نہیں آئی۔ تبدیلی بلند دعوؤں سے نہیں، بل کہ افسر شاہانہ رویہ ختم کرنے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینے سے آتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
