مشہورِ زمانہ’’ کل بل گونپاچی‘‘ ریسٹورنٹ میں ڈنر پارٹی:۔ دو دن کے مسلسل بحث و مباحثہ کے اختتام پر ہماری جاپانی فیلو ’’ایاکو‘‘ نے ہمیں مشورہ دیا کہ کیوں نہ مغز خوری اور علمی بحث و مباحثہ کے اختتام کی خوشی میں آج رات کا کھانا اکھٹے کسی اچھی جگہ کھا ئیں؟ سب نے اثبات میں سر ہلایا۔ شام سوا پانچ بجے ہم سب آئی ہاؤس کے لابی میں جمع ہوئے اور پیدل ہی ’’آیاکو‘‘ کی رہنمائی میں روانہ ہوئے۔ ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی اور میں سیاہ سکرٹ میں ملبوس ماہ وش ’’آیاکوـ‘‘ کے دائیں بائیں رُخ بدل بدل کر آگے جا رہا تھا۔ چینی فیلو ’’شین‘‘ موقع پاتے ہوئے میرے قریب آکر میرے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتی۔ پر میرا اندر کا انسان جاپانی دوشیزہ سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ہلکی بوندا باندی، ٹوکیو شہر کی شام اور گل اندام جاپانی دوشیزہ
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
میرے اندر ایک طوفان بپا تھا جس سے باہر سب بے خبر تھے۔ اس عالم میں ہم روپنگی ہلز کی طرف جاتے ہوئے تقریباً 15 منٹ کے بعد ریسٹورنٹ پہنچے، جہاں پہلے ہی سے کافی بھیڑ لگی تھی۔ ہمیں اولاً کچھ وقت قِطار میں کھڑے ہوکر انتظار کرنا پڑا۔ ثانیاً ایک خوش مزاج ویٹر نے ہمیں ایک میز پر بٹھایا۔ یہاں خوش گپیوں اور قہقہوں کا شور بپا تھا جس سے ایک سماں بندھ گیا تھا۔ عموماً ٹوکیو میں ایسی جگہوں پر خاموشی چھائی رہتی ہے مگر یہاں صورتحال یکسر مختلف تھی۔ مہمان جب یہاں آتے، تو ریسٹورنٹ کاعملہ انہیں اونچی آواز میں ’’خوش آمدید‘‘ کہتا اور جاتے وقت ’’خدا حافظ‘‘ کا انداز بھی بڑا پُرتپاک ہوتا۔ریسٹورنٹ کا اندرونی ہال جاپانی روایتی انداز میں لکڑی سے بنا ہے جو آئے ہوئے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ جبکہ درمیانی ہال میں کھلا باورچی خانہ بھی مہمانوں کے لئے پُرکشش منظر کا سامان فراہم کرتا ہے۔دو خوبصورت جاپانی فنکار (جو جاپان کی روایتی لباس میں مبلوس تھے) جاپانی ڈھول بجاتے ہوئے مہمانوں کو محظوظ کر رہے تھے۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں آپ کو دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے سیاح نظر آئیں گے جس کی وجہ سے یہ ایک ’’کثیر الثقافتی‘‘ مرکز لگتا ہے۔ یہاں کے خدام میں بھی مختلف ملکوں کے لوگ شامل ہیں جس کی بنا پر یہاں زبان کے سمجھنے میں رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ ملازمین خاص کر خواتین خادما ئیں خوش باش اور حسین ہیں جو مہمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں ماہر ہیں۔ ان کے مسکرانے کا انداز رومانوی ہوتا ہے اور چال کسی ہرنی جیسی۔ یہاں مہمان کھانا کھانے کے ساتھ سلیقہ مند خادماؤں کے درمیان رومانوی ماحول کے مزے لیتے ہوئے لذیذ کھانے تناول فرماتے ہیں۔ یہی وہ ریسٹورنٹ ہے جہاں کئی نامی گرامی ہالی ووڈ ستارے سیلوسٹر سٹیلون المعروف ’’ریمبو‘‘ وغیرہ کھانا کھانے آتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب یہاں فلم ڈائریکٹر ’’قونطین تراتینو‘‘ کو ایک بار کھانے کا موقع ملا، تو انہیں یہ جگہ اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اسے اپنی فلم The Bride VS Gogo Yubari” کی کِل بِل لڑائی کے سین کے لئے منتخب کیا۔ ہمارے لئے بیرونی دروازے کے قریب برآمدے میں میز مختص کی گئی جہاں ہم بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوئے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا، تو کئی میزوں پر جوان جوڑے بھی تشریف فرما تھے، جو دھیمی موسیقی اور ہلکی تاریکی میں رومانوی ماحول کا فائدہ اٹھاکر کھاتے سمے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہر لمحہ اپنی محبت سے امر کر رہے تھے۔ ہم سب نے اپنی مرضی کے کھانوں کا آرڈر دیا۔ میرے اور’’سمیتا‘‘ کے علاوہ باقی ماندہ فیلوز نے شراب کے جام بھی منگوائے۔ میں اور سمیتا نے سنگترے کے جوس پر ہی اکتفا کیا۔ جاپانی خوراک سے لطف اٹھانے کے لئے ’’چوپ سٹک‘‘ یعنی لکڑے کے دو چھوٹے ڈنڈوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، جس کا استعمال ہم جیسوں کے لئے مشکل نہیں بلکہ تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔ اس لئے میں اور ہندوستانی فیلو سمیتا ہمیشہ چمچے اور کانٹے منگواتے تھے۔ تاہم میں نچلا بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا۔ چند دن کوشش کے بعد ’’چوپ سٹک‘‘ کی مہارت بہم پہنچائی۔ بعد میں، دوسروں پر رعب بٹھانے کی غرض سے میں اکثر اسی سے خوراک کھاتا۔ یوں ایک تیر سے دو شکار ہوتے، غیرجاپانیوں پر رعب جماتا اور اہلِ جاپان اظہارِ مسرت کرتے۔
جب ہم ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے، تو اچانک اعلان ہوا کہ آج کی شام تمام مہمان خوش نصیب ہیں۔ کیوں کہ وہ ایک بڑے ’’تونا‘‘ مچھلی کی کٹائی کے منظر سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔ یوں ایک بڑی مچھلی وسطی ہال میں لائی گئی اور دو شیف لمبی لمبی تلواروں اور چھریوں کے ساتھ میدان کارزار میں اترے۔ طبل جنگ بجتے ہی چیر پھاڑ کا عمل شرو ع ہوا۔ ریسٹورنٹ انتظامیہ نے اس معمولی عمل کو روایتی موسیقی، برقی قمقموں کی دلفریب سجاؤٹ اور براہِ راست کمنٹری سے اتنا دلکش بنایا کہ ہر کوئی گردن اٹھا اٹھا کر اس منظر کو دیکھنے کے لئے بے چین نظر آنے لگا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کے قریب جاکر چند تصاویر اتاریں اور اس عمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرکے ہی دم لیا۔
یہ منظر یہاں کے نوجوان جوڑوں کے لئے اتنا پُرکشش تھا کہ مختلف میزوں سے چند دلفریب دوشیزاؤں نے بھی مچھلی کاٹنے کے عمل میں حصہ لیا۔ ان کوتاہ لباس حسیناؤں نے جب اپنے نازک ہاتھوں میں تلوار اور چھریاں اٹھائیں، تو عجیب سا لگا۔ پھر جب مذکورہ حسینائیں ڈھول کی تھاپ پر میز پرپڑے مردہ مچھلی کے حصے بخرے کرنے میں مصروف ہوئیں، تومیں نے سوچا کہ عموماً ایسی نازک اندام خواتین چیر پھاڑ کا عمل دیکھنا تک برداشت نہیں کرسکتیں، مگر رنگ و نور سے لبریز اس ماحول میں تلوار بازی کی مشق بہم پہنچا کر یہ خواتین ایک طرح کا مزہ لے رہی تھیں۔اگر یہی سین باہر کسی سمندر کے کنارے ہورہا ہوتا اور کوئی شخص اتنی لمبی تلواروں اور چھریوں سے اتنے سفاکانہ انداز میں ایک معصوم مچھلی کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہوتا، تو سب لوگ کاٹنے والے افراد پر تبریٰ بھیجتے بلکہ اسے جانوروں کے حقوق کا مسئلہ بنا کر سوشل میڈیا پر اٹھایا جاتا، مگر یہاں ایک بڑا مجمع ڈھول کی تھاپ پر اس عمل سے لطف اندوز ہورہاتھا۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ کتنے اعلیٰ پایہ کاروباری تھے جنہوں محض مچھلی کے کاٹنے کے ایک عام سے عمل کوبھی جشن کے طور پر پیش کیا۔ یوں نہ صرف بہت سارے لوگوں کو اس کے دیکھنے کی طرف راغب کیا گیا، بلکہ اسے کھانے پر بھی آمادہ کیا۔
کھانا کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے گپ شپ لگانے کے بعد ہم نے بل ادا کیا۔ باہر نکلنے سے پہلے ریسٹورنٹ کے دروازے پر ہالی ووڈ فلموں کے ہیروز کی تصاویر چسپاں دیکھ کر ہم نے اس ماحول کی بھی تصاویر لیں اور باہر آئے۔ باہر انگریزی محاورے کے مصداق کتے اور بلیاں برس رہی تھیں۔ سب نے اپنی اپنی چھتری نکالی اور آئی ہاؤس کی طرف چلنے لگے۔ (جاری ہے)
…………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔