جدید دور میں بجلی ایک اہم ضروت ہے اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے (ہائیڈل پاؤر پراجیکٹس) سب سے زیادہ ماحول دوست سمجھے جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے علاقہ سوات کوہستان میں پن بجلی کے مواقع قدم قدم پر موجود ہیں۔
15 سال قبل درال ندی کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا گیا، جو علاقے کے لوگوں کے لیے بہت خوشی کی بات تھی۔ کیوں کہ ایک بڑے ترقیاتی منصوبے سے علاقے کے لوگوں کو فائدہ ہی فائدہ ہونا تھا۔ لوگوں نے سوچا کہ اُن کی بے کار زمینیں بکیں گی، ملازمتوں کے مواقع ہوں گے، بجلی مفت یا کم قیمت پر ملے گی…… لیکن دوسری طرف بجلی گھر بنانے والی کمپنی نے مقامی لوگوں کی مشاورت کے بغیر اور منصوبے سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کا اندازہ لگائے بغیر منصوبے کا ڈیزائن اس طرح بنایا کہ سوات کوہستان کی پہچان بحرین کے قصبے کی رونقوں کو حقیقی خطرات لاحق ہوگئے۔ اس پر مقامی لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، تو اُن لوگوں نے جن کی زمینیں بکنے والی تھیں، اس مخالفت کو بدنیتی سمجھا اور یوں لوگوں کی آپس کی نااتفاقی سے فائدہ اُٹھا کر "PEDO” نے بجلی گھر بنالیا اور بحرین کے ساتھ وہی ہوا جس کا خدشہ کیا جا رہا تھا۔
اب ہر سال اگست تا مارچ بحرین کے درمیان بہنے والی درال ندی میں پانی نہ ہونے کے برابر رِہ جاتا ہے، جو بحرین کے آس پاس کی زمینوں کے آب پاشی نالوں، پن چکیوں اور دیگر ضروریات کے لیے بہت کم رہ گیا ہے۔ نہ صرف یہ، بل کہ اس سے ماحول نہایت آلودہ اور بدبودار ہوگیا ہے، مچھر مکھیاں عام ہوگئی ہیں، بحرین کا حسن ماند پڑگیا ہے اور یہاں کی ہوٹل انڈسٹری بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔
اب ایک بار پھر دریائے سوات کا پانی کیدام کے مقام پر ٹنل میں سے گزار کر مدین لے جانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں ہیں اور وہی کچھ دہرایا جا رہا ہے، جو دس پندرہ سال پہلے مقامی لوگوں کی مرضی کے برخلاف زور زبردستی، دھونس دھاندلی اور لوگوں کی عدم دل چسپی اور باہمی نااتفاقی سے فائدہ اٹھا کر پن بجلی گھر بنانے کا منصوبہ لوگوں پر مسلط کیا گیا تھا۔
بحرین اور اس کے قرب و جوار میں رہنے والے کوہستانی لوگ سوات کے قدیم ترین باشندے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں میں مقامی قدیم لوگوں کے خصوصی حقوق تسلیم شدہ ہیں، جن پر ریاستِ پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں۔ ان میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ انھیں ان کے قدرتی وسائل سے زبردستی محروم نہیں کیا جاسکتا۔ بجلی کی قومی پیداوار بڑھانا وقت کی بہت اہم ضرورت سہی، لیکن سوات کوہستان کی قدیم کوہستانی قوم کے مرکزی مقام کو بے رونق بناکر اُجاڑنا اور اسے رہنے کے قابل نہ رہنے دینا کسی طور قابل قبول نہیں۔ منصوبے کے عوض مقامی آبادی کے محض چند افراد کو ان کی کروڑوں کی زمین کے بدلے میں معمولی رقم دے کر علاقے کے لوگوں کے نقصانات کا اِزالہ نہیں ہوسکتا۔
اَب جب کہ بہت دیر ہوچکی ہے، لیکن لوگ منظم اور متحد ہوکر ڈٹ جائیں، تو اس منصوبے کو روکنا یا اس کے تباہ کن اثرات کو کم سے کم کرنا اَب بھی ممکن ہے۔ اگر بحرین اور آس پاس کے گاؤں والے باہم مل بیٹھیں، وقتی اور چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈالیں، اس منصوبے کے منفی اثرات کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیں اور بحرین کے مستقبل کے بارے میں یک سو ہوجائیں، تو اب بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ بحرین جو سب کی پہچان ہے، بحرین جو تحصیل ہیڈ کوارٹر اور سوات کوہستان کا مرکز ہے، بحرین جو ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی منزل ہے۔ اس خوب صورت قصبے کو بنجر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس کو بے رونق ہونے اور اُجڑنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ مقامی لوگوں کو دیر سے سہی، لیکن اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہونے لگا ہے۔ اس موضوع پر سماجی کارکنوں کی دوسری نشست میں حالات کا تجزیہ کیا گیا اور ممکنہ لائحہ عمل کے بارے میں غور کیا گیا۔ کچھ اہداف طے کیے گئے اور ان کے حصول کے لیے طریقۂ کار پربھی کافی حد تک اتفاق ہوا ہے۔ اُمید پیدا ہوگئی ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہوجائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔