’’آپریشن عزمِ استحکام‘‘ مارخوڑلے دَ پڑی نہ یریگی

Blogger Fazal Raziq Shahaab

’’آپریشن عزمِ استحکام‘‘ کی طرح کسی بھی آپریشن کی بات چلتی ہے، تو ہم سواتیوں کے دل اور روح کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔ جس ذلالت اور بے چارگی سے ہم لوگوں نے وہ مہاجرت کا وقت گزارا، اللہ کسی کافر کو بھی نہ دکھائے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
سواتیوں کو ہر کسی نے بہ قدرِ استطاعت لوٹا۔ سیاسی راہ نماؤں سے لے کر راشن سنٹروں کے عملے، ہتھ ریڑھی چلانے والے افغانیوں، راشن سنٹروں کے اِردگرد مردار خور گِدھوں کی طرح فلور ملز کے ایجنٹوں، امریکی خوردنی تیل کے متلاشی امیرزادوں اور حیات آباد کے پراپرٹی ڈیلروں نے مل کر خوب لوٹا۔ ذرا سوچیے، کیا یہ انسان تھے یا سوروں سے بد تر کوئی مخلوق……؟مشتے نمونہ از خروارے، بینظیر والے چیک پہلے 1 ہزار میں ملتے تھے۔ بعد میں بات 3 اور 4 ہزار تک پہنچ گئی۔ ہم نے تو کوشش ہی ترک کردی۔
راشن والی سو کلو گندم کی بوری 15 سو روپے میں فلورملز کے ایجنٹ خریدتے۔ آخری دن تک یہی ریٹ چلتا رہا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
دہشت گردی بارے ریاستی سنجیدگی
دیگر کی طرح ہو، تو آپریشن عزمِ استحکام نہ ہو 
پرانے مریض کا نیا آپریشن؟  
ریاست ماں ہے، مگر سگی یا سوتیلی؟  
کسی انسان کو ایک سوراخ سے کتنی دفعہ ڈسا جا سکتا ہے؟  
ہم نے حیات آباد فیز 2 میں مسجدِ عمار بن یاسر کے قریب ایک چھوٹے سے گھر کا اوپر والا پورشن 9 ہزار روپے ماہوار کرائے پر لیا تھا۔ ایجنٹ نے سیکورٹی کے نام پر 20 ہزار روپے بھی رکھ لیے تھے۔ بعد میں اُس حرام خور سے بڑی مشکل سے وہ پیسا واپس وصول کیا۔
ڈالر کس نے کھائے اور کشٹ کن کو بھوگنے پڑے۔ ستم کی انتہا یہ ہے کہ ایک دفعہ کتوں والے بسکٹ بھی راشن کے ساتھ آئے تھے۔
اس افراتفری کے عالم میں صرف ایک سیاسی جماعت نے لوگوں کی بے لوث خدمت کی اور وہ تھی جماعتِ اسلامی۔ اس کے کارکنوں نے ہمیں کھانے کے لیے برتن، واٹر کولر اور بڑی بڑی پلاسٹک کی چٹائیاں گھر کے دروازے پر لاکر دیں۔سامان میں ایک ڈِنر سٹ شیشے کا بنا ہوا تھا، ہم نے اسے واپس کردیا۔
اس موقع پر خدا نے ہماری لاج رکھی کہ ہم نے کسی لیڈر کا یا کسی حرام خور سرکاری ملازم کا احسان نہیں اُٹھایا۔
میری بیوی کا 2002ء میں کڈنی ٹرانس پلانٹ ہوا تھا راولپنڈی میں۔ ہم ماہانہ ’’چیک اَپ‘‘ کے لیے دو بار اس مہاجرت کے دوران میں اُسے لے کر پنڈی جاتے تھے۔ جہنم میں گزارے ہوئے اُن دو ڈھائی ماہ کی صعوبتوں نے اُسے بہت متاثر کیا اور وہ 2010ء کے پہلے ہفتے میں اللہ میاں کے پاس چلی گئیں۔ بہ قولِ فیض احمد فیضؔ
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جیسے
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے