مشہور ضرب المثل ہے: ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی!‘‘
مہذب دنیا میں ریاست اور اس کی مشینری اپنے شہریوں کے لیے سہولتیں دینے، زندگی آسان بنانے اور ان کی عزتِ نفس کے احترام کو اپنا نصیب العین سمجھتی ہے، لیکن اپنے ملک میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں عام شہری اللہ سے ہمیشہ یہ دعا مانگتا ہے کہ اس کا ریاست سے کوئی واسطہ نہ پڑے ۔ شاید اس صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے پشتو کی یہ مثل وجود میں آئی ہے کہ ’’فیصلہ دی د حکیمہ مہ شہ او رنز دی د طبیبہ مہ شہ‘‘ یعنی کبھی تمھیں کورٹ کچہری اور ہسپتال میں جانا نہ پڑے۔ اب چوں کہ شہری تو سرکار کے پاس جانے سے کتراتے ہیں، تو ریاست چلانے والوں نے سوچا کہ کیوں نہ ڈنڈا اُٹھاکر ان کے پیچھے ہی پڑجائیں۔
طالع مند خان کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/taliman/
اس ملک میں صرف آفت ہی بچے دیتی ہے، اورسکون اور راحت دایمی بانجھ پن کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور موٹر وے سے پہلے ایک ضلع سے دوسرے ضلع اور صوبے سے دوسرے صوبے میں داخل ہونے پر ’’تلاشی‘‘ کے نام پر پولیس سے لے کر ایکسائز، کسٹم اور ٹریفک پولیس تک مختلف محکموں کے تذلیل آمیز رویوں اور استحصال کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اُس زمانے میں اٹک پُل پار کرنے کی دیر ہوتی۔ پل کے اُس پار پنجاب پولیس سے لے کر مختلف قانون نافذ کرنے والے محکمے کسی شکاری کی طرح تاک میں بیٹھے ہوتے۔ ان کی نظر میں ہر پشتون منشیات فروش اور سمگلر ہوتا۔ اگر اور کچھ نہ ملتا، تو گاڑی کے کاغذات میں کوئی نہ کوئی نکتہ نکال لیتے۔ پنجاب میں پختونخوا یا بلوچستان نمبر پلیٹ والی گاڑی میں سفر کرنا تو کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ ہر ضلع کی پولیس کی مٹھی گرم کرنے کے بغیر سفر کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
پھر موٹر وے بننے کے بعد جب یہ عذاب تھوڑا کم ہوا، تو اس سے بڑا عذاب دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی صورت میں نازل ہوا۔ اب ریاست چلانے والوں کو ہر پشتون مشکوک نظر آنا شروع ہوا۔ پہلے دوسرے صوبوں میں رہنے والے، ریاست چلانے والوں کی نظر میں مشکوک تھے۔ اب اپنے ہی گھر، اپنی ہی گلی اور اپنے ہی شہر میں مشکوک بن گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم اپنی گلی اور گاؤں میں ملک کے دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے ناآشنا قسم کے لوگوں کو شناختی کارڈ دکھانے پر مجبور ہوگئے۔ ہر گاؤں میں کم از کم ایک چیک پوسٹ ضرور ہوتی تھی…… اور ہر چیک پوسٹ پر شناخت کرانا، ’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘، ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ جیسے سوالوں کا جواب دینا فرضِ عین تھا۔ اس قسم کی چیک پوسٹوں پر تو عوام 24 گھنٹے ذلیل ہوتے تھے۔ گرمی اور سردی میں لمبی لمبی قِطاروں میں گھنٹوں کھڑے انتظار کے مراحل سے گزرتے۔ اس طریقۂ کار سے اگر کوئی رُکاوٹ پڑتی،تو وہ صرف عوام کی آمدو رفت ہی میں پڑتی…… دہشت گرد اپنی مطلوبہ منزل اور ہدف تک بروقت پہنچ جایا کرتے اور اکثر واپس صحیح سلامت بھی اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جایا کرتے۔ ریاست نے آج تک عوام میں پھیلے اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے چیک پوسٹوں پر پکڑے گئے اور فوجی آپریشن میں مارے گئے دہشت گردوں کی کوئی شناخت یا تفصیلات جاری نہیں کیں۔ عوام کو امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے دہشت گردوں کا تو پتا ہے، لیکن اپنے ہی فوجی آپریشن میں مرنے والوں کی صرف عددی تفصیل معلوم ہے، باقی کچھ نہیں۔ اگر یہ چیک پوسٹیں، جامہ تلاشیاں، ’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ اور ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ جیسے سوالوں سے دہشت گردوں کی آمد و رفت اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام ممکن ہوتی، تو پشتون بیلٹ اور بلوچستان میں کوئی ایک واقعہ رونما نہ ہوتا۔
ابھی کل پرسوں بلوچستان اور جنوبی پختونخوا میں تقریباً 9 ایسے واقعات ہوئے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیک پوسٹوں اور اس پر شناخت اور اندراج کروانے کا مقصد صرف عام شہریوں کو دبا کر کنٹرول رکھنا ہے؟
آپ جب خیبر پختونخوا سے جنوبی پختونخوا کے شیرانی ضلع میں داخل ہوتے ہیں، تو آپ کا پہلا سواگت دانہ سر ایف سی چیک پوسٹ پر ہوتا ہے۔ وہاں گاڑی دور کھڑی کی جاتی ہے اور پھر جاکے اندراج کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ موٹر وے پر سکھر سے سفر شروع کریں، تو چکدرہ تک کچھ بھی نہیں، لیکن جوں ہی چکدرہ ٹول پلازہ کے قریب آتے ہیں، تو اعلان ہوجاتا ہے کہ اپنا اپنا شناختی کارڈ نکال کر ہاتھ میں تھامے رکھیں۔ اس حوالے سے سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی فضل خالق نے یاد دِلایا کہ سوات موٹر وے بننے سے پہلے درگئی چیک پوسٹ تھی، لیکن موٹر وے بننے اور سفر کے لیے کھلنے کے بعد تقریباً ایک مہینے تک چکدرہ ٹول پلازہ پر کوئی چیک پوسٹ نہیں تھی۔ یہ بعد میں بنائی گئی جس پر ایک دفعہ میرا شناختی کارڈ بھی کنڈکٹر سے کہیں گھم گیا تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ شناختی پریڈ صرف عوامی ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے مسافروں پر واجب ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ اس چیک پوسٹوں کے ہوتے ہوئے اس سال درجنوں طالبان سوات میں کیسے داخل ہوئے تھے اور پھر واپس کیسے گئے؟ اس طرح یہ بھائی لوگ وزیرستان میں کس راستے سے داخل ہوتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں؟
جب پچھلے ہفتے چکدرہ ٹول پلازہ چیک پوسٹ کا مسئلہ سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر نے اُٹھایا، تو کمشنر ملاکنڈ نے اس پر نوٹس لیا، لیکن وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس پر کمشنر صاحب نے مذکورہ صحافی کو بتایا کہ یہ چیک پوسٹ ملاکنڈ لیویز نے نہیں لگائی۔ فیاض ظفر کے بقول، لیویز اہل کار باہر کھڑا ہوتا ہے، جو صرف شناختی کارڈ پوسٹ میں تعینات ’’اہل کار‘‘ تک پہنچاتاہے۔ یہ پوسٹ آرمی کی ہے، لیکن اس میں اندر بیٹھے ہوئے شناختی کارڈ چیک کرنے والے کا تعلق فوج کی ذیلی شاخ ’’فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن‘‘ سے ہے۔
یہ ہے دہشت گردی کے حوالے سے ریاست کی سنجیدگی کا حال۔ اب اس طرح کے کرتوتوں سے ریاست اور عوام میں شکوک و شبہات اور فاصلے ہی بڑھیں گے اور عوام میں اشتعال پھیلے گا۔ حکومت کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ عوام ان چیک پوسٹوں کے خلاف احتجاج شروع کردیں، جس کے لیے لایحۂ عمل طے ہونے جا رہا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
دہشت گردی بارے ریاستی سنجیدگی
