قوم کا پیسا مَیں معاف نہیں کرسکتا (والئی سوات)

Blogger Fazal Raziq Shahaab

یہ نہایت خوش آیند بات ہے کہ اس سال پانچ جون کو مرحوم والیِ سوات میاں گل جہان زیب کا یومِ ولادت شایان شان طریقے سے منانے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ دراصل اُس طلسماتی شخصیت کی مقبولیت کا بین ثبوت ہے کہ ریاست کے ادغام پر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود لوگوں کے دِلوں میں اُن کے لیے احترام اور محبت کے جذبات کم نہ ہوسکے۔ اُن کے مخالفین بھی ہوسکتے ہیں، لیکن وہ اگر باضمیر ہوں، تو اُن کی ہمہ جہت شخصیت کی خوبیوں کا اعتراف ضرور کریں گے۔ باقی کوئی بھی انسان خامیوں سے مبرا نہیں ہوسکتا، مگر ہمیں انصاف کی نظر سے دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ اُنھوں نے جب تک وہ اقتدار میں رہے، آخری گھڑی تک اس قوم کی بھلائی کا سوچتے رہے۔ اُنھوں نے 20 سال تک ایک مطلق العنان حکم ران کی حیثیت سے قوم کی قیادت کی اور اُن کو زندگی کے ہر پہلو سے باوجود محدود وسائل کے، سہولتیں فراہم کیں۔ قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ ریاستِ سوات کو پوری دنیا میں امن کے ایک جزیرے کے طور پر روشناس کرایا۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
آپ متحدہ ہند کی تمام ریاستوں کے والیان کی طرزِ زندگی، عیاشیوں اور محلات کی شان دار عمارتوں کا تقابل والیِ سوات کی سادہ زندگی، مختصر سی رہایش گاہ اور عوامی فلاحی کارناموں سے کریں، تو آپ یقینا اس بات پر فخر کریں گے کہ آپ کو ایک روشن خیال اور سادہ طرزِ زندگی کا دل دادہ حکم ران ملا تھا،جن کا اس بھری دنیا میں اور کہیں پیسا تھا نہ گھر…… جو کچھ تھا، سیدو شریف میں آپ کے سامنے تھا۔ اسی وجہ سے تو والیِ سوات کا نام احترام اور محبت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ آپ کہیں بھی ہوں، اگر آپ سواتی ہوں، تو آپ کسی بھی وقت کسی بھی حوالے سے اُن کا ذکر سنتے رہیں گے۔
ہم کو دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پڑوس میں بھی صدیوں پر محیط تاریخ رکھنے والی دو اور ریاستیں بھی تھیں، جب کہ میانگل خاندان کا اقتدار صرف نصف صدی تک رہا۔ اس میں بھی آدھا وقت ریاست کا وجود برقرار رکھنے کی جد و جہد میں گزر گیا۔
آپ نے کبھی سنا کہ آج دیر کے لوگ ’’نواب خسرو‘‘ کا سال گرہ منا رہے ہیں یا درجنوں مہتروں میں سے کسی بھی مہتر کی یاد میں کوئ تقریب ہورہی ہے؟ یقینا نہیں سنا ہوگا۔
اس موقع پر مَیں بعض مخالفین سے صرف اتنی گزارش کروں گا کہ آپ ضرور اپنی تحریروں میں اُن پر مناسب تنقید کریں کہ آپ کو اپنی رائے کا حق ہے، مگر براہِ کرم زبان کو اتنا زہر آلود بھی نہ کریں کہ لوگ آپ کی رائے کو پرِ کاہ جتنی اہمیت بھی نہ دے سکیں۔
مَیں نے ریاستی دور میں 8 سال ملازمت کی ہے۔ مجھے تو اُس مختصر دور کے ترقیاتی کاموں کی رفتار پر آج بھی حیرت ہو رہی ہے کہ ہم کوئی 10، 12 بندے اور ایک انچارج محمد کریم صاحب کس طرح 10 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ریاست کے کونے کونے تک پہنچتے تھے۔
اس وقت مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، شاید سنہ 61ء یا 62ء کی بات ہے۔ بنجوٹ میں عوام اور ریاست کے مشترکہ تعاون سے ایک پرائمری سکول کی تعمیر شروع کی گئی، جس کے لیے لیبر گاؤں کے لوگ فراہم کرتے اور راج مستری اور میٹریل حکومت کے ذمے تھا۔ مقامی پولیس کا ایک جمع دار نگرانی اور مستریوں کی حاضری پر ذمے دار مقرر ہوا۔ ابتدائی "Lay out” کے لیے مَیں گیا تھا۔جمعدار کو ضروری ہدایات دے کر واپس آگیا۔ ہر پندرہ دن بعد جمعدار، مستریوں کی حاضری کا "Muster roll” دفتر لاتا اور پھر اُن کی دہاڑی کی رقم لے کر چلا جاتا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ 
27 نومبر 1948 کا سوات 
والیِ ریاستِ سوات میاں گل عبد الحق جہانزیب  
روسی خبر رساں ایجنسی کا والئی سوات بارے بیان  
ریاستِ سوات کے تعلیمی وظائف  
کچھ عرصے بعد مَیں نے وزٹ کیا، تو کام ابھی تک "Plinth level” تک بھی نہیں پہنچا تھا۔ مجھے شک پڑگیا۔اگلی فہرست گیلکاران آئی۔ بِل پاس ہوا۔ اتفاقاً جمعدار کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آسکا اور سارے کاریگر خود آگئے۔ مَیں نے ویسے ہی پہلے آنے والے مستری سے پوچھا کہ تم نے کتنے دن کام کیا؟ اُس نے کہا: ’’چار دن۔‘‘
مگر فہرست میں 15 دن حاضری لگی تھی۔ یہی معاملہ دوسرے مستریوں کا بھی نکل آیا۔ اس پندھرواڑے کے بِل میں کوئی 4 یا 5 سو روپے کا ہیر پھیر ثابت ہوا۔ ہم نے پورا کیس تیار کرکے والی صاحب کے نوٹس میں لانے کا فیصلہ کیا۔ اُس جمعدار کے افسرِ بالا کمانڈر پولیس کو اعتماد میں لیا اور پھر دفتری اوقات میں پورا ریکارڈ والی صاحب کو پیش کیا۔ پولیس جمعدار کو بلوایا گیا اور اگلے دن پھر والیِ سوات کے سامنے جمعدار کی موجودگی میں تفصیلات دہرائیں۔
والیِ سوات کے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں: ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟یہ قوم کا پیسا ہے، میرا تو نہیں کہ تم کو معاف کردوں۔ تم نے تو قوم کا پیسا چوری کیا ہے۔ مَیں تم کو برخاست کرتا ہوں اور تمھاری سروس کمیٹی ضبط کرتا ہوں۔‘‘
ساتھ کھڑے ایک فوجی افسر کو ہدایت کی کہ جمعدار مذکورہ سے سرکاری اسلحہ لے کر میگزین میں جمع کروا دیا جائے۔ ساتھ ہی مجھے شاباش دی اور اسی طرح سخت نگرانی جاری رکھنے کی ہدایت کی، تو مَیں نے پھر ایک اور”Embezzlement” ٹریس کیا جو ’’وینئی پل‘‘ کے وٹہ جات یا "Approaches” سے متعلق تھا۔ اس کے ذمے دار کلرک کو تو فوراً جیل بھیج دیا گیا تھا۔
جاتے جاتے ایک ضروری بات یاد آگئی۔ اُس وقت مستری کی دہاڑی صرف 5 روپے یومیہ تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے