’’قاضی حنیف‘‘ شخصیت جو بے قدری کا شکار ہوئی

Blogger Fazal Raziq Shahaab

یہ اصطلاح ہم 60ء کی دہائی سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان سے ’’برین ڈرین‘‘ تیزی سے جاری ہے۔ اس کا سبب صرف معاشی حالات کی ناسازگاری نہیں تھا، بلکہ یہاں کی بیوروکریسی کی فرعونیت، حسد اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچے جانے کا نہ ختم ہونے والا کھیل اس کی وجوہات میں شامل ہے۔ اپنے اپنے شعبوں کے کئی ماہرین اپنے خلاف کی گئی سازشوں کی تاب نہ لاسکے اور جدھر بھی نکلنے کا راستہ ملا، نکل گئے۔ باہر جاکر ان لوگوں کو دولت بھی ملی اور عزت بھی۔ انھوں نے بین الاقوامی شہرت بھی حاصل کی اور اپنی خدمات کا صلہ بھی اعزازات کی صورت میں پالیا۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
مجھے ان شخصیات میں سے ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ زرعی سائنس دان سے ذاتی طور پر ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ کوئی 5 یا 6 سال پہلے کی بات ہے۔ میرا بیٹا اُن دنوں ’’ایس پی ایس‘‘ کے سٹاف کا حصہ تھا۔ اُن کے ایک کولیگ کے کزن کی شادی تھی بٹخیلہ کے ایک شادی ہال میں۔ مَیں بھی اُن کے ساتھ گیا تھا۔ وہاں پر میرا تعارف ایک نہایت با رُعب، خوب صورت اور دل کش شخصیت سے ہوگیا۔ شاید میرے ہم عمر ہوں گے۔ اُنھوں نے میرے بارے میں کچھ باتیں سنی ہوں گی یا سوشل میڈیا پر سامنا ہوا ہوگا۔ بہ ہر حال اُنھوں نے کمال توجہ اور دل چسپی سے میرے ساتھ کھڑے کھڑے طویل گفت گو کی۔ پھر رابطے چلتے رہے۔ وہیں پر مجھے پتا چلا کہ موصوف بین الاقوامی شہرت یافتہ زرعی سائنس دان قاضی حنیف صاحب ہیں، جنھوں نے پاکستان میں مختلف مناصب پر خدمات سرانجام دی تھیں اور خاص کر تحقیق کے شعبے کے ڈائیریکٹر جنرل رہ چکے تھے، مگر کچھ نامساعد ماحول کی وجہ سے ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
صنوبر استاد صاحب  
ملوک حاجی صاحب، ایک سچا دوست  
بزوگر حاجی صاحب  
والئی سوات کے پرائیویٹ سیکریٹری، پردل خان لالا 
باجکٹہ (بونیر) کے سید کریم خان  
اس سے پہلے وہ ’’پی ایچ ڈی‘‘ کے سلسلے میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں مقیم رہے تھے۔ وہاں اُن کی ایک قابلِ احترام حیثیت تھی، تو وہ مستقل طور پر وہاں شفٹ ہوگئے۔ جو خدمات وہاں پر اُنھوں نے انجام دیں اُن کے صلے میں اُن کو بین الاقوامی کانفرنسوں میں مدعو کیا جانے لگا۔ وہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے مختلف ممالک میں زرعی مشیر رہ چکے ہیں۔ کئی ممالک نے اُن کی خدمات از خود دعوت دے کر حاصل کیں۔ وہ اٹلی، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ اور جاپان میں بہ طور ایڈوائزر رہ چکے ہیں۔ اُنھوں نے خلیجی ممالک کے گوشت مارکیٹ میں نیوزی لینڈ کے لیے قابلِ قدر حصہ فراہم کروایا۔ اُنھوں نے مسلمانوں کے لیے کرائسٹ چرچ کی مشہور مسجد (نور مسجد) کے لیے زمین حاصل کی۔ یہ وہی مسجد ہے جس میں کچھ عرصہ پہلے ایک دہشت گرد نے نمازیوں کا قتل عام کیا تھا۔
اُنھوں نے اپنے گاؤں گنیار کے لیے جو کام کیا ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں اسی ’’گنیار ماڈل‘‘ کو فالو کیا جارہا ہے۔ وہ کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں بہ شمول انڈیا شرکت کرچکے ہیں۔ اُن کی زندگی کی کہانی اتنی دل چسپ ہے کہ اگر آپ اُن کی خود نوشت "HYBRID OF PEACE” ایک بار پڑھنا شروع کردیں، تو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔اُن کوبس اس بات کا افسوس ہے کہ جن لوگوں کے لیے یہ کتاب لکھی گئی ہے، وہ اسے پڑھ نہ سکیں گے۔اُنھوں نے بہت کوشش کی کہ اس کے لیے کوئی مترجم تلاش کریں، مگر تاحال کوئی مناسب اور اہل شخص نہ مل سکا۔ اُنھوں نے مجھے اپنی کتاب یہاں پر خود تشریف لا کر دی تھی۔ مَیں نے اپنے پوتے شوال کے ہاتھ سوات زرعی یونیورسٹی کو گفٹ کردی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے