تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا اٹھائیس واں لیکچر ہے، مدیر)
٭ افلاطون کی ری پبلک/ ریاست (The Republic):۔ افلاطون نے اپنے ’’علمیاتی نظریے‘‘ (Theory of Knowledge) کی بنیاد پر اخلاقیات (Ethics) کی بنیاد رکھی، یعنی کہ جو اچھائی ہے، وہ صرف منطق کی روشنی میں ہم پہچان سکتے ہیں۔ اسی بنیاد ہی پر افلاطون نے ساری سیاست کی بنیاد رکھی اور اُس نے ایک کتاب لکھی "The Republic” .
مذکورہ کتاب نے سیاسی سوچ کو اس قدر متاثر کیا کہ تمام سیاسیات کے پروفیسر یہ سمجھتے ہیں کہ "The Republic” پہلی ایسی کتاب ہے جو ایک بہت اہم سیاسیات (Political Science) کی کتاب ہے۔
اس کتاب میں افلاطون لکھتا ہے کہ سماج کی سیاست کو اس پوری تھیری (Theory) یعنی اپنے علمیاتی و اخلاقی نظریے کے ساتھ جوڑنا ہے اور جب تک وہ اس پوری تھیری کے ساتھ جڑی نہیں ہوگی، تو وہ کبھی درست سیاست نہیں ہو سکے گی۔
اس علمی و اخلاقی تھیری سے وہ ایک ’’نئی انسانی فطرت‘‘ (Human Nature) کی تھیری بناتا ہے کہ انسان کی قدرت میں کچھ اصول و قوانین ہیں۔
یعنی تین قسم کے قوانین انسان کے اندر پائے جاتے ہیں۔ افلاطون ایک تمثیل/ تمثیل استعمال کرتا ہے کہ انسان اس طرح ہے جیسے ایک ٹانگے پر بیٹھا ہوا ہو اور اُس کے سامنے دو قسم کے گھوڑے ہیں، جن کو اپنے قابو میں اس نے رکھا ہے…… یعنی کہ افلاطون تین مختلف قسم کی قوتیں شامل کرتا ہے: "Tripartite nature of the body and the soul.”
پہلے دو گھوڑے جو مختلف سمتوں میں انسان کو کھینچ کر لے کر جاتے ہیں، اب وہ کیا ہے؟ سب سے پہلے تو ؛ "The spirited element” یعنی وہ "Element” جو اچھائی کا "Element” ہے، وہ کہتا ہے کہ اس کو چھانٹی سے مارنے کی ضرورت نہیں ہوتی، حکم سے اس کی سمت تبدیل کی جا سکتی ہے اور وہ ہمیشہ اچھائی کی طرف بھاگتا ہے۔
دوسری طرف "The bodily Appetites” وہ حصہ جس کو مسلسل لگام میں رکھنا پڑتا ہے، اُس کو کبھی کبھار چھانٹا بھی مارنا پڑتا ہے کہ وہ آگے پیچھے نہ دوڑے۔ بہ ہر حال یہ ضروری بھی ہے۔
اب عقل جو ہے وہ "Charioteer” ہے۔ "The charioteer (reason) controls the two horses”. یعنی عقل ان دونوں گھوڑوں کو لگام میں رکھتی ہے اور دونوں گھوڑوں کو ایک طرف چلاتی ہے۔
افلاطون کے مطابق ہم آہنگ اور بہتر معاشرہ یعنی (Harmonious Society) وہ ہوتی ہے، جوکہ ان دونوں گھوڑوں کو عقل کے قابو میں رکھ کر درست سمت میں چلا سکے، یعنی کہ سب سے ضروری جو چیز ہے، وہ کیا ہوئی؟ وہ عقل و منطق کی قوت ہوئی اور وہ فلاسفرز کا بنیادی نقطۂ نظر ہوا جو کہ سماج کو چلا سکتا ہے۔
افلاطون دراصل ایک ہم آہنگ اور معتدل معاشرے (Harmonious Society) کا تصور دیتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جسم کے حوالے سے جو مختلف قوتیں آپ کو ملتی ہیں، اسی قسم کی ملتی جلتی قوتیں آپ کو آپ کی روح کے حوالے سے ملتی ہیں۔ اسی قسم کی ملتی جلتی مختلف قسم کی صفتیں ہیں، وہ آپ کو "Virtue” کے حوالے سے ملتی ہیں اور اسی قسم کی ملتی جلتی قوتیں آپ کو ریاست کے حوالے سے بھی ملتی ہیں۔
یعنی سب سے پہلے تمام چیزیں ہم جسم، روح، صفتوں اور ریاست میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
جسم کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف دماغ ہے، دوسری طرف سینہ ہے اور تیسری طرف پیٹ۔
یہ مختلف قسم کی قوتیں ہیں اور ذہن ہماری روح کے حوالے سے "Reason” کی کرسی ہے "It is the seat of reason.”
٭ سر، سینہ اور پیٹ:۔ افلاطون کے مطابق سر میں منطق بیٹھی ہوئی ہے، سینے سے ہماری بہادری نکلتی ہے، جس سے ہم لڑ سکتے ہیں اور وہ کام کرسکتے ہیں جو ضروری ہے۔ پیٹ سے ہماری وہ قوتیں نکلتی ہیں جو ہماری ضروریات ہیں، جس پر ہم نے قابو پانا ہوتا ہے۔ ہم نے کھانا کھانا ہوتا ہے۔ ہمیں جسم کو تمام غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور بھی جسمانی ضروریات وہ سارے پیٹ سے جنم لیتی ہیں۔ یعنی کہ سر میں عقل، چھاتی میں جرات اور پیٹ میں ضرورت…… یعنی کہ مادے کا جو جسم ہے، اس کی جتنی بھی ضرورت ہے۔
٭ صفتیں (Characteristics):۔ اسی کے ساتھ کچھ صفتیں جڑی ہوئی ہیں۔
ذہن کے ساتھ "Wisdom”، چھاتی کے ساتھ بہادری اور پیٹ کے ساتھ اعتدال "Temperance” ہے…… یعنی اس پر قابو پانا کہ کس طرح سے ہماری "Appetites” یعنی پیٹ کی ضرورت جو ہے، وہ کہیں بے قابو نہ ہو جائے۔
٭ لوگوں کی گروہ بندی (Classification):۔ اسی کے ساتھ جڑے ہوئے مختلف قسم کے لوگ ہوں گے…… یعنی وہ لوگ جو بنیادی طور پر عقل و ذہن سے کام لیتے ہیں، وہ بنتے ہیں فلاسفرز۔
دیگر متعلقہ مضامین:
فلسفہ کیا ہے؟
اقبال کا فلسفہ خودی
فلسفہ، سائنس اور پاپولر کلچر
سقراط، جس نے فلسفہ کو ایک نئی شکل دی
امام غزالی کا فلسفہ پر اثر
اس طرح وہ لوگ جو بنیادی طور پہ چھاتی سے کام لیتے ہیں، وہ لوگ اکثر بڑے بہادر ہوتے ہیں اور وہ اکثر بنتے ہیں سپاہی یعنی "Soldiers”۔
اور وہ لوگ جو پیٹ سے کام لیتے ہیں، اُن کی بنیادی طور شخصیت، اُن کے پیٹ سے جڑی ہوتی ہے، وہ بھی ضروری ہے اور وہ لوگ تاجر اور مزدور بنتے ہیں جو دنیا کے اندر مادے سے مختلف چیزیں بناتے ہیں، کھانا بناتے ہیں، پانی کو کنوں سے نکالتے ہیں، وہ گھر بناتے ہیں اور وہ ہماری بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
یعنی کہ ہمارے جسم کے تین مختلف حصوں کے ساتھ ہماری روح کے مختلف حصے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
اسی کے ساتھ ہماری مختلف صفتیں جڑی ہوتی ہیں۔ ریاست بھی جو ہے اگر اسی "Nature” کی بنیاد پر بنائی جائے، پھر یہی ریاست ایک "Harmonous Society” بن جائے گی۔
مطلب یہ کہ اگر سماج اس انسانی فطرت کو سمجھ کر بنایا جائے، تو پھر ایک اچھا سماج بن سکے گا، جو کہ اچھی طرح کام کرے گا۔
"The perfect republic would exist when the social structure is in harmony with the characteristics of body, soul and virtue.”
افلاطون کا اس سے مقصد یہ تھا کہ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں، اُن کو حکم ران (Rulers) بننا چاہیے، یعنی جو عقل سے کام لیتے ہیں، اُنھی کو اقتدار میں ہونا چاہیے ۔
اس طرح جو لوگ چھاتی سے کام لیتے ہیں، وہ لوگ بہادر ہیں۔ اُن کو سپاہی بننا چاہیے، تاکہ وہ اس سماج کا دفاع کرسکیں۔
اور وہ لوگ جن کی شخصیت پیٹ سے نکلتی ہیں، جو کام کرنے والے لوگ ہیں، جو ہماری مادی ضروریات پورے کرتے ہیں، وہ لوگ تاجر اور مزدور(workers) بنیں۔
یعنی افلاطون کی جو مثالی ریاست (Ideal Republic) ہے، وہ تین طبقوں میں تقسیم ہوئی ہے:
٭ ایک وہ، جو دماغ سے کام لیتے ہیں یعنی "Guardians”
٭ دوسرے وہ جو چھاتی سے کام لیتے ہیں، وہ ہیں "Soliders” جو دفاع کرتے ہیں۔
٭ تیسرے وہ "Workers” ہیں، جن کی وجہ سے ریاست زندہ رہتی ہے اور جس کی وجہ سے ہماری ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
ایک طرح سے ہم اس کے اندر ہم ’’اینگزیمینز‘‘ (Anaximanes) کا "Microcosm” بھی دیکھ سکتے ہیں اور ’’ہیپوکرائٹس‘‘ (Hippocrates) کی وہ سوچ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جسم کے نظام کے اندر جب ہم آہنگی اور اعتدال ہوگا، تو جسم کا نظام اچھے سے چلے گا۔
جب چار عناصر جن کا ذکر ’’ہیپوکرائٹس‘‘ نے کیا تھا۔ اگر درست تناسب میں ہوں گے، تو جسم ٹھیک چلے گا۔
اسی طرح سماج کے حوالے سے بھی جو تین قسم کے طبقے ہیں، جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے، تو اس کی جو قدرتی قوت ہے، وہ اپنا کام کریں گی اور پھر ایک معتدل معاشرہ بنتا ہے اور بہتر چلتا ہے۔
یعنی سماج بھی ایک جسم کی مانند ہے کہ جس کے اندر جب درست تناسب سے چیزیں جڑیں گی، تو پھر سماج بہتر چلے گا۔
افلاطون ایک ایسے قسم کی ریپبلک (Republic) پیش کرتا ہے جو کہ ’’ایتھنز‘‘ اور ’’اسپارٹا‘‘ سے بہت مختلف ہے، یعنی ایک نئی قسم کی ریاست کا تصور ہے۔ اس میں سب سے اہم کیٹیگری جو ہے وہ ہے: "Guardians and Rulers.” کیوں کہ سرپرست اور حکم ران نے اس نظام کو چلانا ہے، جو کہ سماج کا وہ دانش ور طبقہ ہیں، جس نے عقل کی طاقت سے فیصلے کرنے ہیں۔
افلاطون کے مطابق یہ جو دانش ور طبقہ ہے، یہ اُن لوگوں کا بننا چاہیے جو کہ اس سماج میں سب سے زیادہ ذہین ہو۔ افلاطون یہ پیش کرتا ہے کہ ان کی تربیت (Training) کے لیے ہم ایک مکمل نظام قائم کریں، تاکہ یہ مکمل طور پر اپنے زمانے کے ماہرین بنیں۔
افلاطون کہتا ہے کہ اُن کی 35 سال تربیت ہونی چاہیے، تاکہ علم کے اُس نہج پر پہنچ جائیں کہ وہ سماج کو چلا سکیں۔ اس تربیت میں ذیل میں دی جانے والی سب چیزیں شامل ہوں گی:
Mathematics, Physics, Art, Music, Physical training, Biology, Medicine, Psychology and Literature.
یعنی ان کو سماج کے تقریباً تمام علوم پر عبور حاصل ہوگا۔
افلاطون کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ افلاطون کا خیال تھا کہ دو بنیادی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کے نتیجے میں انسان جو ہے، وہ اچھائی کے راستے کو چھوڑ کر غلطیاں کرتا ہے، بد کرتا ہے اور وہ دو چیزیں ہیں: "Marriage and property”
اس لیے کہ شادی کے نتیجے میں جب انسان بچے پیدا کرتا ہے، تو پھر افلاطون یہ کہتا ہے کہ سماج سے پہلے پھر وہ اپنی فیملی کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس کے علاوہ جب آپ کے پاس کوئی ملکیت ہوتی ہے، تو پھر آپ اپنی ملکیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔
تو افلاطون یہ چاہتا ہے کہ حکم ران (فلاسفرز) جو عقل سے کام لیتے ہیں، اور جن کا ان تمام علوم پر عبور ہوگا…… اُن کی نہ تو کوئی فیملی ہوگی اور نہ ملکیت۔ وہ ایک ایسی جگہ پر رہیں گے کہ جہاں کھانا، کپڑے وغیرہ ان کو دیا جائے گا اور اگر ان کے بچے پیدا ہوجائیں، تو ان کی دیکھ بھال ریاست کرے گی۔ ان کا اپنے بچوں سے زیادہ واسطہ نہیں ہوگا۔
اس "Guardians Class” کے اندر خواتین بھی شامل تھیں۔ افلاطون عورتوں کے حوالے سے بڑا ترقی پسند (Progressive) آدمی تھا۔ وہ کہتا تھا کہ عورتوں کے پاس بھی منطق کی قوت ہے۔ وہ بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔
افلاطون کے مطابق خواتین کی بھی جسمانی تربیت (Physical Training) ہونی چاہیے، بلکہ افلاطون نے کہا کہ اگر ایک ریاست صرف مردوں کو "Train” کرے، تو یہ ایسی بات ہے کہ جس طرح کھلاڑی (Athletes) اپنی صرف ایک بازو کو ہی "Train” کرے…… یعنی جب تک ایک پہلوان دونوں بازوؤں کو تربیت نہیں دیتا، وہ پہلوانی نہیں کرسکے گا…… تو خواتین کی تربیت بھی اس میں شامل ہونی چاہیے۔
مگر دونوں مرد اور عورت پر یہ اُصول سختی سے لاگو ہوں گے کہ اُن کا نہ کوئی خاندان ہوگا اور نہ کوئی جائیداد۔
اس کے علاوہ افلاطون کہتا ہے کہ وہ شاعر جو اِدھر اُدھر کی بے کار شاعری کرتے ہیں، اُن کی شاعری کی ضرورت سرے سے ضرورت نہیں۔
افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ معاشرے کو ایک جگہ معتدل انداز سے چلانے کے لیے حکم رانوں اور سرپرستوں (Guardians) کو اچھا جھوٹ (Noble lie) بولنے کی اجازت ہے۔ اگر جھوٹ کے نتیجے میں معاشرہ صحیح سمت میں جائے، تو وہ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔
باقی آیندہ لیکچر میں۔
اٹھائیس ویں لیکچر کا لنک ذیل میں ملاحظہ ہو:
https://lafzuna.com/history/s-35573/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔