کچھ دیو مالائی شخصیت مشرف خان بابا کے بارے میں

Blogger Sajid Aman

مشرف خان بابا،سلطان محمود (مرحوم) کے بیٹے ہیں۔ اُن کی قوم خٹک (المشہور ماخامیان) اور دنگرام سوات میں رہایش پذیر ہیں۔ مینگورہ کے ہر رہایشی کے ذہن پر مشرف خان بابا کا عکس نقش ہے۔
قارئین! آج جہاں ضلع کچہری گل کدہ ہے، ایک زمانے میں اُس جگہ صرف بڑے اور کھلے کھیت تھے۔ ’’باچا صاحب فارم‘‘ (نرسری) جس کو اَب فارم گراؤنڈ کہتے ہیں، ہالی ڈے ہوٹل آخری عمارت تھی۔ اسی ہاتھ پھر توت کے درخت تھے، جو دارالعلوم السلامیہ کی اکلوتی عمارت تک کھڑے تھے۔ اس کے بعد مقبرہ اور پھر ایک مسجد (جہاں اَب بھی مسجد ہے ) تھی، جس کی نہ چھت تھی، نہ دیواریں…… بس فرش کے ساتھ ایک کنواں تھا، جس میں مینگورہ سیدو شریف کے لوگ مقدس اوراق لاکر جمع کرتے تھے اور مشرف خان اُن کو نذرِ آتش کرتے تھے۔
اُس وقت مشرف خان ’’جب آتش جوان تھا‘‘ کے مصداق بڑے بال، بڑی داڑھی اور موچھ اور بڑے ناخن…… مگر کھلا سینہ، من کے موجی، ایک الگ تھلگ انسان تھے۔
مشرف خان کی اصل عمر کتنی ہے؟ کسی کو نہیں معلوم مگر دنگرام میں مشہور ہے کہ وہ 105 سال کے آس پاس ہیں۔
یوں تو دنگرام میں یوسف زئی، سید اور پرانے سواتی آباد ہیں۔ اِردگرد گجر قوم بھی آباد ہے، مگر خٹک قبیلے کے 25، 30 گھرانے کہاں سے آ کر آباد ہوئے؟ وجہ جو بھی تھی، مگر غربت، محرومی اور حالات کا جبر طے تھا، جو اُن کا رختِ سفر تھا۔
کہتے ہیں کہ مشرف خان بابا کے والد صاحب ’’سلطان محمود‘‘ زمرد کان میں کھدائی کرتے تھے یا وہاں کسی کی ملازمت میں تھے۔ مشرف خان بچے تھے، تو سیدھے سادھے اور کم گو، ہم عمر بچے دیکھ کر مسکرا دیتے تھے اور کچھ مذاق بھی کرتے تھے۔ وہ بولتے کم، مگر محسوس زیادہ کرتے تھے۔ اُن کی ’’آبزرورویشن کی طاقت بلا کی تیز تھی کہ کہیں بول دیتے، تو سب حیران رہ جاتے۔ بے نیاز مشرف خان کا ایک کام تھا، دوپہر کی روٹی کان تک پہنچانا۔ وہ یہ کام بلاناغہ کرتے۔ ایک دفعہ شدید گرمی میں ایک بڑا برتن سر پر رکھ کر ایک ہی سانس میں دنگرام سے زمرد کان پہنچتے پہنچتے لو لگ گئی، بے ہوش ہوگئے اور پھر کبھی ہوش کی دنیا میں نہیں آئے۔ کم گو پہلے سے تھے، مگر اب خاموش ہوگئے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
والئی سوات کے پرائیویٹ سیکریٹری پُردل خان لالا  
بزوگر حاجی صاحب 
امیر چمن خان (نائب سالار ریاستِ سوات)  
فلائنگ کوچ مولوی صیب  
ہمارے ہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ٹھیک نہیں ہوتا، تو اُس کی شادی کرا دیتے ہیں۔ اُن کی بھی شادی کرائی گئی۔ گھر میں اکیلے جوان نہیں تھے، چار اور بھائی بھی تھے؛ دورامن خان، دولت خان، باور خان اور گل شہزاد۔ سب غمِ دنیا میں غرق جینے کی تگ و دو میں تھے۔
شادی کے بعد اللہ تعالا نے مشرف خان کو چار بیٹوں فضل خالق (مرحوم)، خان فراز، زبیر اور سلیم سے نوازا۔ غربت، محرومی اور بے کسی کے ساتھ مشرف خان کے جلال نے قید رہنا پسند نہ کیا اور شہرِ مینگورہ کے مضافات میں نکل پڑے۔ کھانا مل جاتا، تو کھا لیتے۔ زیادہ مل جاتا تو بانٹ دیتے۔ بہت ہی نفیس روح کے مالک تھے۔ مینگورہ کے بہت سے نامی گرامی لوگوں نے کوشش کی انھیں اپنے پاس رکھنے کی۔ ان کی صفائی اور کپڑوں کا خیال رکھا۔ بڑے ڈیروں اور حجروں نے مستقل رکھنے کی کوشش کی، مگر وہ بے نیاز خدا کا بے نیاز بندہ اپنی دھن میں مگن رہا۔ اپنی مرضی سے جتیا رہا۔ غربت اور کس مہ پرسی نے ایک صدی سے زیادہ ہوئے اس خاندان کا پیچھا نہیں چھوڑا، مگر جب بیٹوں کو کچھ ہمت ہوئی، کچھ پیٹ کے عذاب پر قابو پانے کے لائق ہوئے، تو والد کو واپس گھر لے آئے۔
خان فراز (مشرف خان کا بیٹا) کہتا ہے کہ میری والد صاحب کے ساتھ ملاقات 35 سال بعد ہوئی۔ کراچی میں مزدوری کرتا تھا۔ والد کی کہانیاں سنتا تھا، مگر بے بس تھا۔ ایک ہی دعا مانگتا تھا کہ اے خدا! موقع دے کہ اپنے والد کو گھر لے آؤں، جیسے گھر میں سب کے بزرگ ہوتے ہیں۔
خان فراز کے مطابق میں سوات آیا، تو پتا چلا کہ والد صاحب راولپنڈی میں ہے۔ گھوم پھر کر اُنھیں ڈھونڈا ۔ بڑی مشکل سے گھر واپس لایا۔ طویل عرصے تک خانہ بہ دوشی کے عالم میں رہتے ہوئے گھر میں رہنے کی عادت نہیں تھی۔ نہلایا اپنی حیثیت کے مطابق کپڑے سلوائے۔ میری ایک کمائی ہے…… یہی میرے والد صاحب! جب گھر آتا ہوں، دیکھتا ہوں، تو لگتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا خزانہ میرے پاس ہے۔ بے بہا دولت کا مالک ہوں۔ دس سال ہوگئے ہیں میرے والدکا سایہ میرے سر پر قائم ہے۔ خوب صورت باتیں کرتے ہیں۔ ہماری دنیا ان کی وجہ سے آباد ہے۔ میری دولت، میری جنت، میرا آرام، میرے والد صاحب ہیں۔ شاید میں دنیا میں مادی معنوں میں کسی چیز کا مالک نہیں، مگر جو قرار، راحت اور حرارت والد صاحب کے دم سے ہے، اس سکون کے آگے ہر مادی محرومی معنی کھو دیتی ہے۔
بیٹا رکشہ چلاتا ہے۔ بہت مشکل میں ہے، مگر باپ کو بادشاہ کی طرح رکھتا ہے ۔
مشرف خان بابا کے بارے میں کئی دیومالائی داستانیں بھی مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب وہ بچے تھے، تو بڑے گھوڑے یا کسی سواری پر ساتھ بٹھا کر مینگورہ سے دنگرام لے جانے کی کوشش کرتے، مگر وہ پیدل چلنے کو ترجیح دیتا اور بے نیازی سے رد کرتا۔ لوگ ترس کھا کر جب دنگرام پہنچتے، تو دیکھتے مشرف خان پہلے سے پہنچے ہوتے اور چہرے پر وہی بے نیازی ہوتی۔ جھاڑیوں، کھنڈرات میں رہتے، مگر کبھی کسی موذی جانور یا سانپ بچھو نے نہیں کاٹا۔ کبھی کسی سے کچھ مانگا،کسی کو بد دعا اور نہ شکریہ ہی ادا کیا۔ پیسوں سے کبھی رغبت نہیں رہی۔ بے شمار لوگ پیسے دیتے، وہ کسی جگہ آگ لگا دیتے، یا کباب خانے کی آگ میں پھینک دیتے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اُن کی خدمت کی، مدد کی یا عزت سے دیکھا، بدلے میں ہماری مرادیں یوں پوری ہوئیں کہ ہمیں مذاق لگا۔
بہ ہرحال ایک باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی رائے لینے کی ضرورت ہے جن کے ساتھ بابا رہے اور وقت گزارا کہ کس طرح یہ خاندان سوات آیا، کن حالات نے ہجرت پر مجبور کیا، بزرگ جو اُن کی جوانی کی یادداشت رکھتے ہیں، کیا بتاتے ہیں، ان کے اپنے خاندان اور بچوں کا بیانیہ کیا ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے