ہم نے اپنی پچھلی تحریر جو ’’بھٹو ریفرنس‘‘ بارے تھی، میں یہ تحریر کیا تھا کہ تاریخ بہت بے رحمی اور غیر جانب داری سے فیصلہ کرتی ہے۔ اِس دور میں ایک فیصلہ مریم نواز شریف کی بہ طورِ وزیرِاعلا نام زدگی اس احتساب کی ایک کڑی ہے۔ کیوں کہ مجھے یاد ہے کہ کس طرح 80ء اور 90ء کی دہائی میں محترم نواز شریف نے محترمہ بینظیر بھٹو کی بہ طورِ خاتون کردار کشی کی اور اُن کے خلاف فتوؤں کا انبار لگایا۔ ایک فتوا کافی مشہور ہوا تھا کہ ’’اسلام میں عورت کی حکومت جائز نہیں۔‘‘ آج ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیرِ اعلا اپنی بیٹی یعنی ایک خاتون کو بنا دیا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
بہ ہرحال ہمارا آج کا موضوع یہ نہیں، بلکہ ہم بحیثیتِ پاکستانی اس تعیناتی کو بہت خوش گوار اور ملک کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ 70ء کے عشرے میں لاہور کے ایک کاروباری خاندان ’’شریف فیملی‘‘ میں ایک خوب صورت بچی نے جنم لیا۔ تب یہ گمان بھی نہ تھا کہ یہ بچی سیاست میں کیا مقام حاصل کرے گی۔ مریم نواز شریف نے اپنی تعلیم لاہور میں مکمل کی اور پہلی بار عام عوام یا میڈیا میں تب ہائی لائٹ ہوئی، جب اُس کی شادی اپنے وزیرِاعظم باپ کے فوجی کیپٹن اے ڈی سی کیپٹن صفدر سے ہوئی۔ یہ خبریں بھی اُن کے بارے میں بہ طورِ ’’دخترِ وزیرِ اعظم‘‘ ہی چلی۔ اُس کے بعد مریم نواز شریف مکمل گم نامی میں چلی گئی۔ البتہ لاہور کے صحافتی حلقوں میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ میاں نواز شریف کے بیٹوں کو سیاست سے قطعی دل چسپی نہیں۔ البتہ اُن کی بڑی بیٹی مریم نواز شریف میں نہ صرف سیاست کے جراثیم ہیں، بلکہ وہ ایک بہتر سیاست دان بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی ڈھیر ساری تقاریر کی وہ مصنف نہ ہوں، تو مانیٹر تو ضرور ہیں۔ لیکن مریم نواز کو پہلی بار عوام نے بہ طورِ سیاست دان تب دیکھا جب جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا لگا کر نواز شریف کی دوسری حکومت کو ختم کر دیا۔ اُس مارشل لا کے خلاف مسلم لیگ ن کی عمومی قیادت دبک کر بیٹھ گئی تھی۔ عوام میں اُن کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نکلی تھی اور بیگم صاحبہ کے ساتھ اُن کی لاڈلی بیٹی موجود تھی۔ لاہور کی سڑکوں نے یہ منظر شاید 22 سال بعد دیکھا تھا۔ 22 سال قبل محترمہ بینظیر بھٹو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ نکلی تھیں۔ بہ ہرحال بہت جلد ہی میاں نواز شریف کی ہدایت پر وہ واپس ہوگئی اور پھر شریف خاندان ایک معاہدہ کرکے خود سعودی عرب چلا گیا۔ مریم نواز بھی اپنے خاندان کے ساتھ قریب آٹھ سال سعودیہ میں رہی۔ اس کے بعد سنہ 2008ء کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم چلائی اور پی پی پی کی مدد سے پنجاب میں اپنی حکومت تشکیل دی کہ جس کی سربراہی میاں شہباز شریف کر رہے تھے۔ اس دوران میں بھی مریم نواز تقریباً گم نام ہی رہی۔ سنہ 2013ء کے انتخابات کے بعد مریم نواز، وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ نظر آتی تھی۔ وہ بینظیر انکم سپورٹ کی سربراہ بنی، لیکن اُس اصل کردار سنہ 2018ء کے بعد شروع ہوا۔ ویسے تو سنہ 2017ء میں جب شریف خاندان کے خلاف ’’پانامہ اسکینڈل‘‘ کی انکوائری شروع ہوئی، تو مریم مین سٹریم میڈیا میں آنا شروع ہوگئی تھی۔ لاہور کی اُس نشست کہ جہاں اُس کی بیمار والدہ اُمیدوار تھیں، پر اُس نے عمران خان اور تحریکِ انصاف کی مکمل مقبولیت کے باجود تنِ تنہا انتخابی مہم چلائی اور نشست جیت لی…… لیکن بہ ہرحال وہ عوامی طور پر 2018ء کے بعد نظر آنا شروع ہوئی اور انتخابی جلسوں سے خطاب کرنا شروع ہوئی۔ پھر جب عمران خان وزیرِاعظم بنے، تو مریم نواز کو والد کے ساتھ جیل بھی جانا پڑا۔ اُس کے بعد بیماری کی وجہ سے نواز شریف جب لندن چلے گئے، تو پیچھے مسلم لیگ کی عملاً قیادت مریم نواز کے پاس آگئی۔ اب صحافتی و سیاسی حلقوں میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ میں ’’کراؤڈ پِلر‘‘ صرف مریم شریف ہیں۔ حالاں کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ہیں اور وہ دوسری دفعہ وزیرِاعظم بنے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ عوامی سطح پر جناب شہباز شریف کی اہمیت و حیثیت محض یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے بھائی ہیں، جب کہ مریم نواز نے یہ بات منوائی ہے کہ وہ بے شک نواز شریف کی بیٹی ہیں اور وہ یہاں بے شک دخترِ نوازشریف ہونے کی وجہ سے آئی ہیں، لیکن اُس کی بہ ذاتِ خود اپنی شخصیت میں ایک قابلیت بھی ہے اور ایک صلاحیت بھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مریم نواز شریف کا نیا روپ
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی
اچھائیوں میں مقابلہ و موازنہ کیجیے
بہ ہرحال مریم نواز بہ طورِ وزیرِ اعلا اور مسلم لیگ (ن) کا ایک نیا چہرہ میدان میں آچکی ہیں۔ ایک بڑے صوبے کی وزیرِ اعلا کا حلف لے چکی ہیں۔ آج مریم بی بی اُس کرسی پر براجمان ہیں کہ جہاں ممتاز دولتانہ، مصطفی کھر، معراج خالد، حنیف رامے، نواز شریف، شہباز شریف، منظور وٹو اور چوہدری پرویز الٰہی جیسے تجربہ کار اور سینئر ترین سیاست دان بیٹھے تھے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مریم بی بی اس کرسی کی حق دار بھی ہیں اور ضرورت بھی…… لیکن اَب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا مجموعی طور پر اجتماعی شعور بہت انتہا پسندانہ قسم کا ہے۔ جیسے ہی مریم نواز نے حلف اُٹھایا، بلکہ نام زد ہوئی، تو ایک حلقے نے کہا کہ پاکستان کو بینظیر کیا شاید مارگریٹ تھیچر سے زیادہ مضبوط اور عقل مند راہنما مل گئی۔
دوسرے طبقے نے کہا، اُو جی! کہاں بینظیر بھٹو اور کہاں یہ نا اہل امیر زادی۔
کسی نے کہا کہ جی! اگر نواز شریف کی بیٹی نہ ہوتی، تو کسی ہسپتال کی کلرک بننے کی بھی یہ خاتون اہل نہ تھی۔
ایک صاحب روزانہ ٹی وی پر کہتے ہیں کہ مریم نواز پنجاب کی عثمان بزدار پلس ثابت ہوگی۔
المختصر، ہماری قوم مریم نواز کو بہ طورِ وزیرِ اعلا صرف سیاسی نظریات یا وابستگی کی بنیاد پر دیکھ رہی ہے۔ حالاں کہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ مریم نواز ’’مریم نواز‘‘ ہیں۔ اُس کا مارگریٹ تھیچر، ہیلری کلنٹن، اندرا گاندھی، کوریزن اکینو، مس فاطمہ جناح یا محترمہ بینظیر بھٹو سے موازنہ و مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے نہ اہمیت…… بلکہ اصل بات یہ ہے کہ بہ طورِ ایک خاتون، مریم نواز کو سپورٹ کیا جائے۔
بہ ظاہر مریم نواز کی ایک دبنگ شخصیت ہے، تعلیم یافتہ ہے، پُرجوش ہے اور وہ پُرکشش شخصیت کی مالک خاتون ہے، لیکن بہ ہرحال مریم نواز پر تبصرہ کچھ وقت بعد اُس کی کارگردگی دیکھ کر کیا جائے۔
اگر تو محترمہ مریم صاحبہ کی کارگردگی بہ طورِ وزیرِاعلا درست نظر نہ آئے، تو بالکل تنقید کریں…… لیکن اگر وہ بہتر پرفارم کرے، نتائج نظر آئیں اور عوام کو فائدہ ہو، تو پھر یقینا اُس کی تعریف بھی کی جائے اور اُس کا ساتھ بھی دیا جائے۔
دوسری بات، اب کچھ مخالفین حتی کہ حمایتی دانش وروں کو مریم نواز کے اُوپر سے ’’بنتِ نواز شریف‘‘ کا ٹیگ لگانا بھی بند کرنا ہوگا۔ سیاسی طور پر تو یقینا مریم بی بی کا نواز شریف کی بیٹی تعلق بنتا ہے۔ نواز شریف کی اچھائیوں اور برائیوں دونوں کا کریڈٹ تو بہ ہرحال اُن کے پاس خود بہ خود جائے گا، لیکن اَب بہ طورِ وزیرِ اعلا ہم کو یہ نہیں دیکھنا کہ مریم نواز، ’’نواز شریف‘ کی بیٹی ہے…… بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ مریم نواز اَب وزیرِ اعلا پنجاب ہیں۔ اُس کی انتظامی کارگردگی اور عوامی فلاح پر اُس کے اقدامات کیا ہیں؟
مجھے یاد ہے ایک دفعہ پی پی پی کے ایک اہم راہ نما نے کہا تھا کہ شاید بی بی بینظیر، بھٹو صاحب سے جیلس ہے۔ وہ ہمیشہ جماعتی اور حکومتی اجلاس میں خود کو بہ طورِ ’’بینظیر بھٹو‘‘ نمایاں کرتی ہیں۔ جب یہ خبر بینظیر بھٹو تک پہنچی، تو اُنھوں نے پی پی کے سی اے سی اجلاس میں اِس پر بہت دیرتک تبصرہ کیا اور کہا کہ بھٹو محض میرے والد نہیں بلکہ میرے آئیڈل ہیں، لیکن اَب وزیرِ اعظم مَیں ہوں، تو مجھے بہ طورِ بینظیر بھٹو کام کرنا ہوگا اور ’’بھٹو کی بیٹی‘‘ کے خول سے نکلنا ہوگا۔ اُسی وقت اُنھوں نے بیگم نسیم ولی خان کی مثال دی تھی کہ بیگم ولی خان نے ایک جلسۂ عام میں کہا تھا کہ اَب جب ولی خان اندر ہیں، تو مَیں ’’بیگم ولی خان‘‘ نہیں بلکہ بہ طورِ ’’نسیم خان‘‘ پختون بیٹی بن کر مقابلہ کروں گی۔
سو اَب یقینا مریم نواز بھی بہ طورِ مریم نواز ہی تاریخ کے کٹہرے میں ہے۔ اگر اُس کی کارکردگی بہتر ہوئی، تو اُس کے والد نواز شریف کی عزت و نیک نامی میں اضافہ ہوگا…… اور اگر وہ ناکام ہوئی، ’’بزدار پلس‘‘ ثابت ہوئی، تو پھر وہ اپنے والد کا نام بھی بدنام کرے گی اور اپنی سیاست کو بھی تباہ و برباد کرے گی۔
ان سطور کے ذریعے ہم وزیرِ اعلا پنجاب مریم نواز کو ایک مشورہ مفت ضرور دیں گے کہ محترمہ وزیر اعلا صاحبہ! آپ اگر کچھ مثبت کرنا چاہتی ہیں، تو اول آپ کو سول بیورو کریسی کو نکیل ڈالنا ہوگی۔ خاص کر انتظامی افسران جن سے میری مراد اے سی، ڈی سی اور کمیشنر وغیرہ ہیں، کیوں کہ پچھلے چند ماہ سے جب سے مَیں سوشل ورک میں ہوں، میرا یہ تجربہ ہے کہ ملک کی اصل بیماری بیورو کریسی ہے۔ پاکستان میں سول بیورو کریسی کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ شاید ان لوگوں کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں کا عام عوام سے رویہ انتہائی توہین آمیز ہوتا ہے۔ ان کو عوام کے مفادات کا رتی برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔
اگر نئی پُرجوش وزیرِ اعلا صاحبہ صرف سویلین بیورو کریسی کو درست کر دیں، تو آپ کے صوبے میں 50 فی صد بہتری تو خود بہ خود آجائے گی۔
یہاں پر ہم راولپنڈی کے علاقہ میں ’’لوسر کچرا کنڈی‘‘ کی مثال پھر دیں گے۔ گو کہ اس پر ایک پورا کالم لکھا جا چکا ہے کہ وزیرِ اعلا صاحبہ محض بیورو کریسی کی کرپشن اور نا اہلی اس بات پر دیکھ لیں کہ اس 21ویں صدی میں پاکستان کی واحد بیورو کریسی ہے کہ جو کچرا ٹھکانے لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، بلکہ کھلے آسمان کے نیچے پھینک رہی ہے اور عام عوام میں مفت میں بیماریاں تقسیم کر رہی ہے۔
بہ ہرحال ہم محترمہ مریم نواز شریف کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں اور اُن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ نئے انداز، نئے جوش اور نئے ولولے کے ساتھ صوبے میں بنیادی تبدیلی لائیں گی کہ جس کی وہ مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ اُن کا دور پنجاب میں سنہری دور مانا جائے گا اور مستقبل میں شاید بہ طورِ وزیرِ اعظم ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ہماری دعائیں محترمہ مریم شریف کیساتھ ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔