محترمہ مریم نواز شریف کو صوبے کی عنانِ حکومت سنبھالے چند ہی روز ہوئے ہیں، مگر اُنھوں نے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا دیا ہے۔ وہ ہر لمحہ متحرک رہتی ہیں۔ اُن پر تنقید کرنے والے اپنے مفید مشوروں سے نوازتے ہوئے اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ وزیرِ اعلا کا کام پالیسی دینا اور انتظامیہ کے ذریعے اس پر عمل کروانا ہے۔ ہسپتالوں، تھانوں، یوٹیلٹی سٹورز اور سستے بازاروں میں جانا اُن کا کام نہیں۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے اپنی جگہ سچے ہیں۔ جب اُنھیں سیاست سے دلچسپی شروع ہوئی، تو اُنھوں نے پنجاب پر جناب عثمان بزدار کی حکومت دیکھی تھی۔ اُن کا آئیڈیل عثمان بزدار کو بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ اُنھیں یہی پتا ہے کہ وزیرِ اعلا کا کام بس دفتر میں بیٹھنا اور احکامات دینا ہے۔ وہ مریم نواز شریف کا تقابل جب بزدار سے کرتے ہیں، تو اُنھیں محترمہ مریم نواز شریف کا یہ عوامی سٹائل ہضم نہیں ہوتا۔ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ مریم نواز شریف کا بہ طورِ وزیرِ اعلا جناب عثمان بزدار سے مقابلہ نہیں۔ اُن کے سامنے بہ طورِ آئیڈیل اُن کے اپنے چچا میاں شہباز شریف ہیں، جنھوں نے بہ طور وزیرِ اعلا بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اُن کے سامنے یقینا جناب محسن نقوی کی بہ طورِ وزیرِاعلا کارکردگی بھی ہے، جنھوں نے اپنے مختصر دورِ حکومت کے دوران میں مثالی کارکردگی کے نمایاں نقوش چھوڑے ہیں۔ ساری دنیا تو اللہ سے بھی راضی نہیں ہوتی۔ تنقید کرنے والوں کی پروا کی جائے، تو ہونے والے کام بھی نہیں ہو پاتے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں تنقید کو تنقیص کا متبادل بنا دیا گیا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
مخالفین کوشش کے باوجود مریم نواز شریف کے رمضان پیکیج پر تنقید کا کوئی پہلو تلاش نہیں کرسکے، تو اُنھوں نے اس بات پر اعتراض اٹھایا ہے کہ رمضان پیکیج جس تھیلے میں پیک کیا جاتا ہے، اُس پر میاں نواز شریف کی تصویر کیوں چھپی ہوئی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اُنھیں رمضان پیکیج تو قبول ہے، بس نواز شریف کی تصویر پر اعتراض ہے۔ کیوں کہ وہ اس کپڑے کو سرہانہ بنانے یا کسی دوسرے استعمال میں نہیں لا سکیں گے۔ بہ ظاہر وہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ رمضان پیکیج سرکاری طور پر دیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس پر پارٹی سربراہ کی تصویر نہیں ہونی چاہیے۔
اگر ہم ماضی میں جائیں، تو 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے شہید بے نظیر بھٹو کے نام پر ’’بے نظیر انکم سپورٹ‘‘ پروگرام شروع کیا تھا۔ ملک و قوم کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اُن کے نام سے منسوب یہ ایک بہترین امدادی پروگرام ہے، جو تاحال کامیابی سے جاری ہے۔
2013ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی، تو یہ پروگرام اُسی نام سے جاری رہا۔ البتہ جب 2018ء میں جناب عمران خان کی حکومت آئی، تو اُنھوں نے اس کا نام تبدیل کر کے ’’احساس پروگرام‘‘ رکھ دیا۔ شاید وہ اس طریقے سے بینظیر بھٹو کا نام عوام کی یادداشت سے محو کرنا چاہتے تھے۔ عمران خان کی اقتدار سے علاحدگی کے بعد ’’احساس پروگرام‘‘ دوبارہ ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کے نام سے کام کرنے لگا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں گھپلے
خیرات نہیں، ہنر!
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی بدعنوانی کی داستان
اب ذرا اس بات کا جائزہ بھی لیتے چلیں کہ کیا جناب عمران خان کے دَور میں سرکاری منصوبوں کو پارٹی پروجیکشن کے لیے استعمال کیا گیا، یا اس سے مکمل احتراز کیا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحت کارڈ کا منصوبہ دراصل میاں نواز شریف نے شروع کیا تھا۔ البتہ اس میں وسعت اور ہر خاص و عام تک رسائی جناب عمران خان نے ممکن بنائی۔ بلاشبہ یہ عمران خان کا سب سے بڑا میگا پراجیکٹ تھا۔ اس کا نام عمران خان نے تبدیل کرکے ’’صحت انصاف کارڈ‘‘ رکھ دیا۔ یہ پاکستان تحریکِ انصاف کی تشہیر کی شعوری اور سوچی سمجھی کوشش تھی۔ اس کے علاوہ محکمۂ تعلیم میں ایک نیا تجربہ کیا گیا جب ’’انصاف آفٹر نون سکولز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ ’’انصاف شیلٹر ہومز‘‘، ’’انصاف کسان کارڈ‘‘، ’’انصاف راشن کارڈ‘‘، ’’انصاف معذور و بزرگ کارڈ‘‘، ’’انصاف مزدور کارڈ‘‘ وغیرہ سمیت کتنے ہی پراجیکٹ ہیں، جن کے ناموں میں اپنی سیاسی پارٹی کی تشہیر کا پورا پورا خیال رکھا گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنے فلاحی اور رفاہی منصوبہ جات میں اپنی پارٹی یا لیڈرشپ کی تشہیر کا پورا پورا اہتمام کیا ہے، تاکہ آیندہ الیکشن میں اپنے ان پراجیکٹس کو کیش کروایا جا سکے۔ ایسا کرنے میں ہرج بھی نہیں۔ اگر کسی پارٹی یا لیڈر نے عوام کی فلاح و بہبود کے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ہے، تو اُسے اُس منصوبے کا کریڈٹ لینے کا پورا حق حاصل ہے۔ ویسے بھی ایسے منصوبے نہ صرف عوام کے دلوں کو چھولیتے ہیں، بلکہ لیڈر اور منصوبے کا نام ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں۔ بی آئی ایس پی کانام بدلنے کے باوجود عمران خان عوام کے دلوں سے بے نظیر بھٹو کو نہ نکال سکے۔ ’’صحت انصاف کارڈ‘‘ کا نام جو مرضی رکھ لیں، عمران خان کا نام اس کے ساتھ ہمیشہ عوام کے دلوں سے جڑا رہے گا۔
گذشتہ سال رمضان پیکیج کے تحت ملک بھر میں مفت آٹا کی تقسیم ہو یا مریم نواز کا موجودہ رمضان پیکیج ہو، عوام میاں نواز شریف کو دعائیں دیتے رہیں گے۔ ناموں کو چھوڑیں، منصوبوں کی اِفادیت دیکھیں۔ اگر عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے، تو پہنچنے دیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ عوام کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ان کی امداد ہو رہی ہے۔ ان کے لیے یہی بہت ہے۔ غرض مند دیوانہ ہوتا ہے۔ اسے اس سے سروکار نہیں کہ اس کی غرض کون پوری کر رہا ہے؟
تنقید کرنے والے سیاسی ورکروں کو بھی چاہیے کہ کھلے ذہن کے ساتھ ایک دوسرے کی اچھائیوں کوتسلیم کریں۔ مفید منصوبوں سے خود بھی فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی اُٹھانے دیں۔ وسعت قلبی اور وسیع النظری سے کام لیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ سبھی کے پاس اپنی حکومتوں کی اچھائیاں کیش کرانے کو بہت کچھ ہے۔ اپنی اپنی اچھائیوں کا موازنہ و مقابلہ کیجیے۔ ایک دوسرے میں کیڑے نکال کر مایوسی مت پھیلائیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔