تحریر: فاطمہ عروج راؤ
ایملی برونٹے (Emily Bront) کا ناول ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘(Wuthering Heights) ایک شاہ کار ناول ہے، جو 1847ء میں ’’مس کاٹلی نیوبی پبلشرز، لندن‘‘ سے تین جلدوں میں شائع ہوا۔
ایملی برونٹے برطانوی مصنفہ ’’شارلٹ برونٹے‘‘ (جن کی شہرہ آفاق تصنیف ’’جین آئر‘‘ ہے) کی بہن تھیں۔ ’’ایملی برونٹے‘‘، ’’شارلٹ برونٹے‘‘ اور ’’این برونٹے‘‘ تینوں نہ صرف بہنیں تھیں، بلکہ لکھاری بھی تھیں۔
’’وودرنگ ہائیٹس‘‘ کی اشاعت کے 92 برس بعد 1939ء میں اس پر فلم بنائی گئی…… جسے 1940ء کے آسکر ایوارڈز میں 8 مختلف ایوارڈوں کے لیے نام زد کیا گیا۔ 2007ء میں اس فلم کو امریکہ نے اپنا فلمی ورثہ قرار دیتے ہوئے ’’نیشنل فلم رجسٹری‘‘ میں محفوظ کرلیا۔
کہنے کو ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ ایک عشقیہ کہانی ہے…… لیکن اس کہانی کا انوکھا پن ’’ہید کلف‘‘ کا کردار ہے جسے ’’محبت‘‘ مُثبت راہوں پر لے جانے کی بجائے شیطان بننے پر مجبور کردیتی ہے۔
’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ مقامی لوگوں کی زبان میں اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں آندھیاں چلتی ہوں اور ہوائیں چیختی ہوئی گزرتی ہوں۔ درحقیقت یہ ناول بھی عشق کے اسی قسم کے جذبات کی عکاسی ہے۔
’’ارنشا‘‘ نامی شخص سفر سے واپسی پر پالنے کے ارادے سے ایک بچے کو گھر لے آتا ہے، جسے اُس کے بچے بالکل پسند نہیں کرتے اور وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اُس پر تشدد کرکے کرتے ہیں۔ ’’ارنشا‘‘ کی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے وہ اپنے باپ کے سامنے تو ایسی حرکتیں نہیں کرتے، لیکن اُس سے آنکھ بچا کر اُس سے نہ صرف مار پیٹ کرتے ہیں بلکہ اُسے خود سے حقیر بھی سمجھتے ہیں۔ اس کی کچھ وجہ اُس کی سانولی رنگت بھی تھی، جو اُس فیملی کے بچوں ’’ہنڈلے‘‘ اور ’’کیتھی‘‘ سے میل نہ کھاتی تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
شارلٹ برونٹے کا ناول ’’جین آئر‘‘ (تبصرہ) 
کلیلہ و دمنہ (تبصرہ)  
البرٹ کامیو کا ناول ’’اجنبی‘‘ (تبصرہ) 
جنت کی تلاش (تبصرہ)  
’’صوابی کی ثقافت کا آئینہ‘‘
انھی محرومیوں اور تشدد کے ماحول میں پل کر جوان ہونے والے اس ’’ہیتھ کلف/ ہید کلف‘‘ نامی بچے کو ’’ارنشا‘‘ کی بیٹی کیتھی سے محبت ہوجاتی ہے، جو کہ خود اُس کی محبت میں مبتلا ہوتی ہے…… لیکن ہر ظلم و ستم برداشت کرنے والے بچے کو اپنی محبت کا اظہار نہ کرنا آیا۔ یوں بھی وہ ’’ارنشا‘‘ کے دنیا سے جانے کے بعد اُس خاندان میں اپنی حیثیت پہچانتا تھا…… یعنی ایک نوکر سے بھی بدتر۔
’’کیتھی‘‘ یہ جانتے ہوئے کہ اس کا بھائی کبھی ’’ہید کلف‘‘ سے اُس کی شادی نہ ہونے دے گا۔ اس لیے وہ ’’ایڈگر‘‘ نامی لڑکے سے شادی کرلیتی ہے، جوکہ عہدے کے اعتبار سے مجسٹریٹ ہے۔اگرچہ اس کے اس اقدام کے پیچھے بھی ’’ہید کلف‘‘ کی بہتری پنہاں ہوتی ہے…… لیکن ’’ہید کلف‘‘ اُسے بے وفائی کا الزام دیتا ہے۔ محرومیاں، تحقیر و تذلیل بھرا بچپن اور جوانی کی ناکام محبت اُسے ایک ایسے انسان میں بدل دیتی ہے جس کے تصور سے لوگ خوف کھاتے ہیں۔
وہ کھلے عام اپنی، ’’ہنڈلے‘‘ اور ’’ایڈگر‘‘ کی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ نہایت باریک بینی سے اپنی زندگی کے اگلے بیسیوں سالوں کا منصوبہ بناتا ہے، جس کے تحت ’’ایڈگر‘‘ اور ’’ہنڈلے‘‘ کی ساری جائیداد اپنے نام کروانا ہوتی ہے۔ اور اپنے اس منصوبے کے بھینٹ اپنی بیوی (ازابیل) بیٹے (لنٹن) اور بہو (کیتھرائن) کو بھی چڑھادیتا ہے۔
وہ نہ صرف ’’ہنڈلے‘‘ اور ’’ایڈگر‘‘ سے انتقام لیتا ہے، بلکہ ان کی اولادوں کو بھی تعلیم اور محبت سے دور رکھ کر اپنے رویے کی سزا دیتا ہے۔
مرتے ہوئے جس خوشی سے موت کو گلے لگاتا ہے، اس خوشی کا وجہ اس کی وہ وصیت بھی ہوتی ہے جس کے تحت مرنے کے بعد، ’’ہید کلف‘‘ کو ’’کیتھی‘‘ کے پہلو میں دفن کیا جانا ہے۔
لکھاری نے کہانی کو نہ صرف عمدگی سے بیان کیا ہے، بلکہ انسانی جذبات و نفسیات کے ان چھپے ہوئے پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے، جو انسان اور شیطان میں مشترک ہیں۔
حقیر سمجھا جانا، ذلت برداشت کرنا کسی انسان کو ایسے انسان میں بدل دیتے ہیں جوکہ وہ نہیں بننا چاہتا۔
کہانی کا موضوع ’’رقابت‘‘ ہے جو کہ خود محبت سے ذیادہ دل چسپ نظر آتی ہے۔
انتقام کی آگ میں جل کر اپنا آپ تیاگ دینا، لوگوں کو تکلیف دے کر خوش ہونا اور ایک شخص کی محبت کی وجہ سے کئی اور لوگوں سے نفرت کرنا انسانی نفسیات کی وہ بھیانک شکل ہے، جو حیرت انگیز ہی نہیں قدرتی بھی ہے۔
یہ بھی لکھنے والی کا کمال ہے کہ ’’ہید کلف‘‘ کا کردار اس قدر عمدگی سے لکھا گیا ہے کہ کبھی تو کردار سے نفرت ہوتی ہے اور کبھی پڑھنے والے کو اس سے ہم دردی ہونے لگتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ سمجھنے میں بھی دشواری ہونے لگتی ہے کہ اصل مظلوم کون ہے اور ظالم کون؟
اس ناول کا ایک اور غمگین پہلو یہ بھی ہے کہ یہ لکھاری کا آخری ناول تھا اور وہ اس کی اشاعت کے سال بعد ہی چل بسیں تھیں۔ اس ناول کا اُردو ترجمہ ’’سیف الدین حسام‘‘ نے کیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔