سب ایک دوسرے کو پھنسانا چاہتے ہیں۔ خود کوئی بھی آگے بڑھ کر تاج و تخت کو چومنا نہیں چاہتا۔ سبھی کو تاجِ شاہانہ نوکیلے کانچ سے بنا ہوا لگ رہا ہے۔ تختِ شاہی کو اقتدار کے بھوکے سیاست دان کانٹوں کی سیج سمجھ کر اس سے دور بھاگ رہے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم میں بلاول بھٹو زرداری قوم سے اپیل کرتے رہے کہ بوڑھے سیاست دانوں کو مسترد کر کے نوجوان قیادت کو موقع دیا جائے۔ نوجوان قیادت سے مراد بلاول کی اپنی ذات تھی…… مگر تختِ شاہی کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے والوں میں بلاول بھٹو زرداری کا پہلا نمبر رہا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
جناب میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بن کر تاریخ رقم کرنے کے لیے لندن سے خصوصی طور پر پاکستان تشریف لائے تھے۔ اُن کی تمام تر انتخابی مہم اسی نکتے کے گرد گھوم رہی تھی۔ مریم نواز شریف بار بار اپنے پاپا کو وزیرِ اعظم کے روپ میں نہ صرف خود دیکھ رہی تھیں بلکہ عوام کو بھی دکھا رہی تھیں۔ پاکستان کے تمام بڑے قومی اخبارات کے صفحۂ اول پر 6 فروری کو پورے صفحے کا اشتہار شائع کروایا گیا تھا، جس میں پاکستانی عوام کو جناب نواز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کی خوش خبری سنائی گئی تھی۔ الیکشن کے نتائج کے بعد مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کے بجائے میاں شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نام زد کر دیا…… لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ کولیشن گورنمنٹ کی صورت میں آنے والی مشکلات اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی عہدوں کے مطالبے نے مسلم لیگ (ن) کے اکابرین کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ مشاورتی میٹنگ میں میاں نواز شریف کو مشورہ دیا گیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ قبول کرنے کی بجائے پنجاب میں اپنی حکومت بنانے پر اکتفا کیا جائے، جہاں آزاد جیتنے والے ارکان کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن کو پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔
مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی میں کسی کے پاس واضح اکثریت نہیں۔ وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمے داری ہے، مسلم لیگ ن کی اکیلی نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
جمہوریت بہترین انتقام ہے
انتخابات قومی اُمنگوں کو زُباں عطا کرنے میں ناکام
انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل کا طریقہ کار
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان پہل کریں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مشترکہ مرکزی حکومت تشکیل دیں۔ ہم آپ کو مبارک باد دیں گے۔
جہاں تک پاکستان تحریکِ انصاف کا تعلق ہے، تو انھیں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے جناب عمران خان اڈیالہ جیل سے سیدھا وزیرِ اعظم آفس جاتے نظر آ رہے تھے۔ نتائج کے بعد جناب عمران خان نے عمر ایوب کو اپنی پارٹی کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نام زد کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ایک وفد نے اسد قیصرکی سربراہی میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے عمر ایوب کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے ووٹ دینے کے ون پوانٹ ایجنڈے پر ملاقات بھی کرلی تھی، مگر عمران خان نے اپنا المشہور ’’یو ٹرن‘‘ لیتے ہوئے مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرکے ایک لحاظ سے انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے۔ حالاں کہ پی ٹی آئی نے اس دعوے کے ساتھ سپریم کورٹ میں انتخابی نتائج کو چیلنج کیا ہے کہ اس کی 85 جیتی ہوئی سیٹوں سے اسے محروم کر دیا گیا ہے۔
جناب چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی پٹیشن کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے اپنی سربراہی میں تین رُکنی بنچ تشکیل دیتے ہوئے 19 فروری کو سماعت بھی مقرر کر دی ہے۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی کا 85 سیٹوں والا دعوا بھی 2013ء والے 35 پنکچروں والے دعوے جیسا ہے، جسے بعد میں عمران خان نے اپنا سیاسی بیان قرار دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی 85 سیٹوں والا دعوا ثابت نہیں کرسکے گی۔ اس لیے اس نے بالواسطہ طور پر نتائج کو مان کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
مجھے جون 2020ء میں خواجہ سعد رفیق کا قومی اسمبلی میں خطاب یاد آ رہا ہے، جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ وقت آنے والا ہے وزارتِ عظمیٰ دینے والے وزارتِ عظمیٰ لے کر پھریں گے، لیکن لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔
یوں لگتا ہے جیسے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہان کو بزبانِ ساغر صدیقی کہہ رہا ہو
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
آج ملک کو انھی حالات کا سامنا ہے۔ کہ کوئی وزارتِ عظمیٰ لینے کو تیار نہیں۔ پی ڈی ایم کی کم زور حکومت کی ناقص کارکردگی اور اس کے انتخابی نتائج دیکھنے کے بعد اب کم زور مخلوط حکومت کی سربراہی لینے کو کوئی جماعت تیار نہیں۔ سب کی نظر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے پر ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا تاج پہن کر تختِ شاہی پر بیٹھنا کسی کو گوارا نہیں۔ عین ممکن ہے کہ کسی کم زور اور نسبتاً غیر معروف شخصیت کو وزیرِ اعظم بنا کر قومی حکومت تشکیل پا جائے۔
قارئین! جناب صادق سنجرانی یا موجودہ نگران وزیرِ اعظم کے نام بھی یہ قرعہ نکل سکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔