روحی بانو کی زندگی پر اِک نظر

Blogger Rafi Sehrai

ایک وقت تھا کہ پاکستان ڈراما انڈسٹری پر روحی بانو کا راج تھا۔ وہ خداد صلاحیتوں کی مالک تھی۔ اپنے وقت کی حسین ترین اداکارہ تھی۔ اُس نے وہ عروج دیکھا کہ لوگ جس کا محض خواب ہی دیکھتے ہیں۔ وقت اُس کا تھا اور وہ راج کماری کی طرح شوبز انڈسٹری پر راج کر رہی تھی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیاں اُس کی تھیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نواز کر حکومتی سطح پر بھی اُس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
بلاشبہ روحی بانو جیسے فن کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے فن کی بہ دولت پرستاروں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
روحی بانو 10 اگست 1951ء کو ہندوستان کے معروف طبلہ نواز اللہ رکھا کے ہاں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد اللہ رکھا نے دوسری شادی کرلی، تو روحی بانو کی والدہ سوتن کا وجود برداشت نہ کرسکیں اور خاوند سے اُن کے اختلافات پیدا ہوگئے۔ چناں چہ وہ روحی بانو کو ساتھ لے کر کراچی آ گئیں۔روحی بانو معروف بھارتی موسیقار ذاکر حسین کی سوتیلی بہن تھیں۔
روحی بانو گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم ایس سی نفسیات کی ابھی طالبہ تھیں، جب اُنھوں نے ٹی وی پر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ پاکستان ٹیلی وِژن کی اولین اداکاراؤں میں سے ایک ہیں۔ بقولِ امجد اسلام امجد ’’وہ قریباً چالیس سال ایکٹیو رہیں۔شاید ایک دو خواتین ہی ایسی ہوں گی جنھیں اُن کے ہم پلہ ٹھہرایا جاسکے۔ مَیں نے اپنے پروفیشنل کیریئر کے دوران میں ایسی خاتون نہیں دیکھی۔‘‘
روحی بانو کو قدرت کی طرف سے بے پناہ حسن سے نوازا گیا تھا۔ ٹیلی وِژن نے اُنھیں وہ مقام اور موقع دیا جس میں اُنھوں نے کھل کر اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ ہر کردار میں یوں گہرائی تک اُتر کر اُسے اپنے اوپر اوڑھ لیتی تھیں کہ اُن کی اپنی ذات کی مکمل نفی ہو جاتی تھی۔ وہ کردار کے سانچے میں پوری طرح ڈھل جاتی تھیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
روحی بانو کا یومِ انتقال 
رشید عطرے کی یاد میں 
جنید جمشید کی یاد میں 
نثار بزمی کی یاد میں 
نسیم بیگم کی یاد میں 
منو بھائی کی یاد میں 
روحی بانو کے اہم ابتدائی ڈراموں میں ’’کرن کہانی‘‘ شامل ہے، جو 1973ء میں ٹیلی کاسٹ ہوا۔ یہ ڈراما بے حد مقبول ہوا۔ اگلے ہی برس 1974ء میں اُنھوں نے ’’زیر زبر پیش‘‘ جیسے لازوال ڈرامے میں اپنی بے مثال اداکاری کی دھاک بٹھا دی۔ اس کے بعد پی ٹی وی کے ہر اہم ڈرامے کی کاسٹ میں روحی بانو کا نام شامل ہوتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیے اور ہر کردار سے انصاف کیا۔ 1970ء اور 1980ء کے عشرے میں وہ ٹی وی سکرین پر چھائی رہیں۔ اُس دوران میں اُنھوں نے اشفاق احمد، بانو قدسیہ، شوکت صدیقی، حسینہ معین، اصغر ندیم سیّد، امجد اسلام امجد اور منو بھائی جیسے بڑے رائٹرز کے ڈراموں میں اپنی بے مثال اداکاری سے اپنے کرداروں کو زندہ جاوید کر دیا۔
اشفاق احمد کی سیریز ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے کھیل ’’اشتباہِ نظر‘‘ میں اُن کا کردار ناقابلِ فراموش تھا۔ ’’دروازہ‘‘، ’’دھند‘‘، ’’سراب‘‘، ’’زرد گلاب‘‘، ’’قلعہ کہانی‘‘، ’’آخری گیت‘‘ اور ’’حیرت کدہ‘‘ اُن کے لازوال ڈرامے ہیں۔
وہ پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی بہت مقبول تھیں۔ اُن کے 1980ء میں ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈرامے ’’پکی حویلی‘‘ نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی تھی۔
روحی بانو نے پی ٹی وی ڈراموں کے ساتھ ساتھ فلموں میں بھی اپنے فن کے خوب جوہر دکھائے اور بے پناہ کامیابی سمیٹی۔ اُنھوں نے ’’اناڑی‘‘، ’’دلہن ایک رات کی‘‘، ’’تیرے میرے سپنے‘‘، ’’نوکر‘‘، ’’زینت‘‘، ’’پہچان‘‘، ’’سیاں اناڑی‘‘، ’’بڑا آدمی‘‘، ’’دل ایک کھلونا‘‘، ’’گونج اُٹھی شہنائی‘‘، ’’راستے کا پتھر‘‘، ’’دشمن کی تلاش‘‘، ’’آج کا انسان‘‘، ’’پالکی‘‘، ’’کائنات‘‘، ’’خدا اور محبت‘‘، ’’کرن اور کلی‘‘، ’’ضمیر‘‘ اور ’’ٹیپو سلطان‘‘ سمیت بے شمار فلموں میں شان دار پرفارمنس کے ذریعے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
روحی بانو کو اُن کی فنی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1981ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) سے نوازا گیا۔ پی ٹی وی کی طرف سے نگار ایوارڈ کے علاوہ گریجویٹ ایوارڈ اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کرنے میں بھی وہ کامیاب رہیں۔
2005ء میں روحی بانو کے 20 سالہ اکلوتے بیٹے کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ صدمۂ جانکاہ اُن پر بہت گراں تھا۔ وہ اس صدمے کا بوجھ برداشت نہ کرسکیں اور ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ اپنے کرداروں کے ذریعے لاکھوں دلوں پر راج کرنے والی روحی بانو کی زندگی کے آخری سال بہت تلخ گزرے۔ قبضہ مافیا نے اُن کے گھر، پلاٹ اور گاڑی پر قبضہ کرلیا۔ اُنھیں لاہور میں نفسیاتی علاج گاہ فاؤنٹین ہاؤس میں بھی وقت گزارنا پڑا۔ وہ آخری دنوں میں اپنی بہن کے پاس ترکی چلی گئی تھیں، جہاں 15 جنوری 2019ء کو ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ گردوں کے عارضے سمیت بہت سی بیماریوں نے اُنھیں گھیر لیا تھا۔ طبیعت زیادہ بگڑنے پر اُنھیں وینٹی لیٹر پر لگا دیا گیا، جہاں دس دن تک وہ بیماری سے لڑتی رہیں، مگر علاج بیماری کا ہوتا ہے، موت کا تو کوئی علاج نہیں ہوتا۔ 25 جنوری کو استنبول کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئیں۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے