میں کاؤنٹر پہ گیا جہاں آئی ہاؤس کے گیسٹ ہاوس میں میرے لئے پہلے ہی سے کمرہ بک تھا۔ میں اپنے کمرے میں گیا، سامان رکھا اور تھوڑی دیر کے لئے بیڈ پر لیٹ گیا، تا کہ تھوڑا آرام کرسکوں۔
انٹرنیشنل ہاؤ س آف جاپان 1952ء میں قائم کیا گیا جو دراصل یہاں کے مفکرین، محققین اور دانشوروں کی جگہ ہے۔ یہاں ہر وقت علمی مباحثے ہوتے ہیں۔ آئی ہاؤس کے قیام کا مقصد بین الاقوامی ثقافتی و دانشوارانہ تبادلوں کو فروغ دینا تھا اور جاپان کے باقی ماند ہ دنیا کے ساتھ دوستی اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنا تھا جس میں دنیا کے دیگر ممالک سے علما، محققین، مفکروں، دانشوروں، سماجی و ثقافتی کارکنوں، فنکاروں اور صحافیوں کو جاپان مدعو کرکے صحت مند مباحثوں، مختلف اداروں کے دوروں، سیمیناروں، سول سوسائٹی کے سا تھ ملاقاتوں وغیرہ میں شمولیت کا موقع دیا جاتا ہے۔ یہاں کے علمی مباحثے قدیم یونان کے علمی مراکز کی یاد دلاتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں علمی و ثقافتی مباحثو ں کو انتہائی سنجیدگی سے ماپا جاتا ہے۔ محققین، دانشوروں اور عالموں کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہے اور تجزیاتی عمل اور مباحثوں سے مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔ آئی ہاؤس کی عمارت ٹوکیو کے پوش علاقہ روپنگی ضلع میں واقع ہے، جس کی ایک طرف عظیم الشان موری ٹاور اور دوسری طرف ٹوکیو ٹاور کے دیوقامت مینار ہیں۔ آسمان کو چھوتی ہوئی جدید عمارتوں کے درمیان آئی ہاؤس کی عمارت اصل میں ایک پُرسکون دنیا ہے جہاں لائبریری، کانفرنس ہال، کیفے ٹیریا اور خاص کر خوبصورت باغ ہر وقت قومی و بین الاقوامی عالموں اور دانشوروں کا مرکز دکھائی دیتا ہے۔
آئی ہاؤس کے گیسٹ ہاؤس میں پہلی رات گزارنے کے بعد صبح ناشتہ گارڈن ریسٹورنٹ میں کیا ۔ گارڈن ریسٹورنٹ کی ایک طرف سر سبز گھاس کا دالان ہے جب کہ سامنے کی طرف آئی ہاؤس کا جنت نما باغ ہے۔ یہاں مغربی اور مشرقی کھانے ترتیب سے لگے ہوتے ہیں، جہاں نہایت صاف ستھرا اور شائستہ سٹاف ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ویٹرز میں زیادہ تر خواتین ہیں جو سلیقہ اور خوش اخلاقی کا مجسم پیکر ہیں۔ ان خواتین سٹاف میں ’’کودائی را‘‘ بھی ہے، جو جاپانی گڑیا لگتی ہے۔ ریسٹورنٹ میں ان کی موجودگی ماحول کا لطف دوبالا کرتی ہے۔ وہ برق رفتاری سے ہر مہمان کے پاس جاتی ہے اور چائے کافی کا پوچھتی ہے۔
میں ناشتہ کرنے کے بعد باہر نکلا اور روپونگی کا جائزہ لینے لگا۔ روپونگی ٹوکیو شہر کے مہنگے ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں دن رات سیاحوں اور مقامی لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ یہاں رات کے وقت سیکڑوں کلب کھلے اور منچلے نوجوان سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہاں کی خاص بات ’’روپونگی ہلز‘‘ نامی جگہ ہے جہاں کا مشہور زمانہ موری ٹاور سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہوتا ہے جبکہ یہاں کے ’’موری آرٹ میوزیم‘‘ میں کوئی نہ کوئی ملکی یا بین الاقوامی آرٹ نمائش جاری رہتی ہے۔
لفظ ’’روپونگی‘‘ کے معنی ’’چھے درخت‘‘ کے ہیں، جہاں کسی زمانیں میں چھے ’’زیلکوا‘‘ کے قدیم درخت ہوا کرتے تھے، مگر تین دوسری جنگ عظیم سے پہلے جبکہ باقی ماندہ تین دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہوئے۔ روپونگی اور ملحقہ ’’آذا بوجوبان‘‘ میں بیشتر ممالک کے سفارت خانے ہیں اور اس کے بالکل قریب ہی مشہور ٹوکیو ٹاور ہے، جہاں ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ میں مختلف عمارتوں، دکانوں ا ور پارکوں کو دیکھتے ہوئے ایک سپر مارٹ کے اندر گیا جس پر جاپانی زبان میں درج تحریر میرے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ اند ر داخل ہوا، تو اولین الماریاں کاسمیٹکس کی پائیں، تاہم مزید آگے جانے کے بعد روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا بھی نظر آنے لگیں۔ میں خوراکی اشیا والی الماریوں کی طرف گیا اور چاکلیٹ ڈھونڈنے کے لئے الماریوں کو سکین کرتا گیا۔ یہاں حرام اور حلال خوراک کا مسئلہ ہے۔ اس لئے میں مختلف پیکٹس پر انگریزی کے الفاظ ڈھونڈنے کی کوشش میں تھا، تاکہ یہ معلوم کر سکوں کہ کہیں ’’سؤر‘‘ یا دوسری حرام چیزوں کے اجزا شامل نہ ہوں، مگر ہر پیکٹ پر جاپانی زبان درج تھی۔ میں کافی دیر تک اس کشمکش میں تھا کہ کہیں حرام اجزا والی خوراک کی چیزیں اٹھا نہ لوں اور اس لئے میں جب انتہائی انہماک سے ایک الماری کے نچلے خانے پر جھکا ہوا تھا، توجاذبِ نظر اور خوبصورت نقوش والی جاپانی دوشیزہ ’’کیکو‘‘نے میری مدد کرنے کا پوچھا۔کیکو در اصل جاپان کی ایک عام لڑکی ہے جو روزانہ دس سے بارہ گھنٹے سپرسٹور میں کام کرتی ہے۔ جاپان میں زیادہ تر لوگ اسی طرح کام کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جاپان کے لوگ دنیا بھر میں محنت اور مشقت کے لئے مشہور ہیں۔ کیکو لمبے مگر دلکش جسم کی مالک ہے اور اس کے گلابی گالوں والے چہرے پر نقوش بھی خوبصورت ہیں۔ اس کی ناک لمبی ہے اور ہونٹ پتلے اور چاکلیٹی ہیں جس کی وجہ سے وہ مردوں کے لئے انتہائی جاذبِ نظر خاتون ہے۔وہ سٹورمیں سفید لباس زیب تن کرتی ہے۔ کیوں کہ یہ اس سپر سٹور کی یونیفارم ہے۔ یہاں جتنے ملازم ہیں، سب نے اسی قسم کا لباس پہنا ہے۔ جاپان کے سپر سٹور ز اور دکانوں میں بہت کم ملازمین انگریزی سمجھتے ہیں، تاہم کیکو ان چند میں سے ایک ہے جو انگریزی نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ بول بھی سکتی ہے۔ اس لئے ہماری یہ پہلی ملاقات ہماری دو مہینوں کی دوستی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ میں نے چاکلیٹ اور جو س خریدا اور باہر نکلنے لگا، تو دور ایک الماری میں سامان رکھتے ہوئی کیکو نے اونچی آواز سے پکارتے ہوئے کہا:’’اری گاتو گوزائی ماست‘‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تو کیکو کا گلابی چہرہ تازہ گلاب کے پھول کی مانندچمک رہا تھا ۔ (جاری ہے)