گروپتونت سنگھ پنو کے قتل کی بھارتی سازش

Blogger Irshad Mehmood

امریکہ کے محکمۂ انصاف نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے خفیہ اداروں نے ایک بھارتی اہل کار کی نیویارک میں مقیم خالصتان کے حامی رہنما گروپتونت سنگھ پنو کو قتل کرانے کی سازش پکڑی ہے۔
اس تہلکہ خیز انکشاف نے چندماہ قبل کینیڈا کے اس الزام پر مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ چندہ ماہ قبل بھارتی خفیہ ایجنسی نے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجارکو کینیڈا میں قتل کرایا تھا۔ اس الزام نے بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں زبردست تناؤ اور بے اعتمادی پیدا کی ہے۔
ارشاد محمود کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irshad-mehmood/
امریکی محکمۂ انصاف نے نیویارک کی ایک عدالت میں بھارت کے خلاف 15 صفحات پر مشتمل ایک طویل فردِ جرم عائد کی۔ جس کے مطابق ایک سرکاری بھارتی اہل کار نے امریکہ میں مقیم بھارتی شہری نکھل گپتا کے ذریعے ایک سکھ امریکی شہری گروپتونت سنگھ کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔نکھل گپتا نے پنو کو قتل کرانے کے لیے ایک ہٹ مین کی خدمات حاصل کیں، جو درحقیقت امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کا خفیہ ایجنٹ تھا۔ نکھل گپتا نے کرائے کے قاتل کو بتایا کہ نجار بھی اس کا ہدف تھا۔ اُس نے مزید کہا کہ ہمارے ڈھیر سارے اہداف ہیں۔
امریکہ اور کینیڈا میں ہونے والی ان وارداتوں کے بعد یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی نے دنیا بھر میں اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے کرائے کے قاتلوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ امریکی حکام کے پاس انسانی اور الیکٹرانک ذرائع سے حاصل کردہ ایسے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں، جنھیں جھٹلانا ممکن نہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی امریکہ اور کینیڈا میں سیاسی مخالفین پر حملوں کی منصوبہ بندی، فنڈنگ اور اُن کو انجام دینے میں ملوث تھی۔
فردِ جرم سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائی طور پر 5 افراد کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جن میں سے 3 امریکہ میں اور 2 کینیڈا میں مقیم تھے۔
امریکی عدالت میں پش کی جانے والی فردِ جرم سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت ایک خطرناک راستے پر گام زن ہے اور وہ بیرونِ ملک سرگرم سیاست دانوں، سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو ہدف بنانے کے لیے بھاری رقم خرچ کرنے پر ہی آمادہ نہیں، بلکہ اپنی سیاسی ساکھ اور سفارتی تعلقات کو بھی داو پر لگانے کے لیے تیار ہے۔
کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو نے جب بھارت کو سکھ رہنما کے قتل کے الزام میں آڑے ہاتھوں لیا، تو بھارت نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ عارضی طور پر ویزے معطل کیے اور درجنوں کینیڈین سفارت کاروں کو ملک سے نکلنے کا حکم دیا۔ تاہم امریکی الزام کے جواب میں اُس نے ایک نرم حکمتِ عملی اختیار کی اور کہا کہ ماورائے عدالت قتل بھارت کی سرکاری پالیسی نہیں۔ امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے اُس نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلا سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
خالصتان اور انڈیا، کینیڈا کشیدگی  
نریندرا مودی بھارت کی تباہی کے لیے کافی ہے 
بھارت کی مال دار ترین خاتون 
کینیڈا میں مبینہ قتل اور امریکہ میں ناکام سازش نے مغربی دنیا کو بھارتی عزائم اور خطرناک مہم جوئی پر ششدر کردیا ہے۔ وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کا ایک اسٹریٹجک پارٹنر حلیف ممالک کے اندر اُنھی کے شہریوں کو نشانہ بناسکتا ہے۔ اس طرح بھارت کی مغربی دنیا میں ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اُن الزامات کے حوالے سے بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ براہِ راست گفت گو کی۔ علاوہ ازیں سینئر امریکی سفارت کار اور انٹیلی جنس اہل کار اپنے بھارتی ہم منصبوں سے اس بھارتی طرزِ عمل پر سخت تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
پنو کے قتل کی سازش میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اسی پس منظر میں مغربی دنیا میں بھارت کے سیاسی مخالفین کے تعاقب کو روکنے کے لیے، ریسرچ اینڈاینالیسس ونگ (را) کے دو سینئر افسران کو سان فرانسسکو اور لندن سے نکالا گیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں را کے اسٹیشن چیف کی نشست خالی پڑی ہے۔ کینیڈا پہلے ہی را کے اسٹیشن چیف کو نکال چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو اپنے مخالفین کو قتل کرانے کے لیے بین الاقوامی سطح کا نیٹ ورک چلانے کے الزامات پر پہلی بار بین الاقوامی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی ویب میگزین ’’دی انٹرسیپٹ‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ بھارت کی ’’را‘‘ متحدہ عرب امارات اور افغانستان میں مقیم جرائم پیشہ نیٹ ورکس کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں مختلف افراد کے قتل میں ملوث ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’’نجر کے علاوہ حالیہ برسوں میں، برطانیہ اور کینیڈا میں بہت سے سکھ سیاسی کارکن پُراَسرار طورپرہلاک ہوئے ہیں، جن کے اہلِ خانہ بھارتی حکومت پر اُن افراد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے مبینہ طور پر اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کا حکم دے کر دنیا بھر میں بھارت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نے بہت سے ممالک کو دنیا میں ’’اچھوت‘‘ بنایا اور اُنھیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حتیٰ کہ اُنھیں شدید بین الاقوامی دباو اور اقتصادی پابندیوں کا شکار بھی ہونا پڑا۔
بھارت کو امریکہ اور کینیڈا میں اپنے حالیہ فیصلوں کا دفاع کرنا پڑے گا۔ اُن ممالک میں عمومی طور پر حکم ران عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور عدالتیں اپنا کام آزادی کے ساتھ سرانجام دیتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ بھارت امریکہ کا ایک سٹریٹجک شراکت دار ہے اور اسے چین کے متبادل کے طور پر ابھارا جا رہا ہے۔ اسے امریکی عدالت کے اندر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس عدالتی عمل کے دوران میں آنے والے دنوں میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اس کے مزید خفیہ نیٹ ورک بے نقاب ہوسکتے ہیں۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو اب یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ بھارت طویل عرصے سے ماورائے عدالت قتل میں ملوث رہا ہے۔ حال ہی میں قطر میں بھارتی بحریہ کے افسران کو جاسوسی کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ یہ محض ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ڈھیر سارے کشمیری، سکھ اور عیسائی سماجی اور سیاسی کارکنوں کو حالیہ برسوں میں نجار کی طرح ٹھکانے لگایا گیا ہے۔
ایک حاضرِ سروس بھارتی انٹیلی جنس افسر اس وقت بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزام میں پاکستانی جیل میں قید ہے۔ حالیہ مہینوں میں کراچی، لاہور، راولپنڈی، راولاکوٹ اور خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ایک درجن کے قریب پاکستانی شہری پُراَسرار طور پر ہلاک ہوگئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کے قتل کی منصوبہ بندی، فنڈنگ اور اُن اہداف کو نشانہ بنانے کے عمل اور کینیڈا میں نجار کے قتل میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ وزیرِاعظم مودی کے اندرونی حلقے میں امت شاہ اور اجیت ڈوول جیسے سخت گیر لوگ شامل ہیں، جن پر گجرات میں ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ وہ اس عمل کو دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ اگر بھارت کو جلد کٹہرے میں کھڑا نہ کیا گیا، تو بھارت کی طرح دیگر ممالک کو بھی مغربی دنیا میں سرگرم اپنے مخالف سیاسی اور سماجی ناقدین کا جینا حرام کرنے سے کوئی روک نہ سکے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے