’’انٹرنیٹ گورنینس فورم‘‘ کے زیراہتمام سہ روزہ کانفرنس منعقدہ بیروت لبنان میں شرکت کی دعوت دی گئی، تو اسے قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوا کہ اپنے خلیل جبران کی سرزمین کو دیکھنے کا موقع ملنا تھا۔ اس سفر کے جملہ اخراجات ’’انٹرنیٹ کارپوریشن‘‘ نے برداشت کئے۔ کیونکہ اس کانفرنس کے دوران میں ایک گھنٹے کا ورکشاپ کرنا تھا جس میں بات کرنے کے لیے برطانیہ سے ایملی ٹیلر، ایران سے سیاوش شہشہانی اور پاکستان سے راقم کو دعوت دی گئی تھی۔ پہلی بار ایک خالص عربی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا جس میں 22 عرب ممالک کے سیکڑوں مندوبین شریک تھے۔ مقررین کی زبان عربی تھی لیکن غیر عربوں کے لیے انگریزی میں ترجمے کا بہت عمدہ انتظام کیا گیا تھا۔ ہال کے صدر دروازے پر چھوٹے چھوٹے ڈیوائس مع ہیڈفون دستیاب تھے جن کی مدد سے ہر مقرر کی عربی تقریر کا شستہ اور عام فہم انگریزی میں رواں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ میں نے بھی ایک عدد آلہ لیا اورمقرر ین کی عربی تقاریر کا انگریزی ترجمہ سننے لگا۔ اس کام پر مامور ہال کے ایک کونے میں چھوٹی چھوٹی کیبنوں میں لڑکیاں بیٹھی تھیں جو نہایت روانی اور برجستگی کے ساتھ ترجمہ کر رہی تھیں۔ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی اور ہسپانوی ترجمے کی سہولت بھی موجود تھی۔ اس اجتماع میں عرب ممالک کے علاوہ ایران، پاکستان، بھارت اور مغربی ممالک کے لوگ بھی شریک تھے۔
لبنان بحیرہ میڈیٹرینین کے ایک کنارے پر واقع ایک پیارا ملک ہے۔ وقت کی کمی کے باعث میں ہوٹل سے زیادہ دور تو نہ جاسکا لیکن شہر کے سُنی اکثیرتی علاقے میں پیدل گھومنے کا موقع ضرور ملا۔ یہ ملک یورپ کے قریب ہونے اور 1943 ء تک فرانس کی نوآبادی رہنے کی وجہ سے مغرب کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ملک ایک طویل عرصے تک اندرونی خانہ جنگی کا شکار رہاتھا جس کی وجہ فرقہ واریت تھی۔ کیوں کہ یہاں سنی، شیعہ اور میرونائٹ عیسائیوں کے علاوہ دروز مسلمان قریب قریب ایک جتنی تعداد میں رہتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں مذہب بلکہ فرقوں کی بنیاد پر حکومتی عہدوں کی تقسیم آئینی طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ یعنی ملک کا صدر عیسائی، وزیراعظم سنی مسلمان اور پارلیمنٹ کا سپیکر شیعہ مسلمان ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ صحت مند اور تر و تازہ نظر آتے ہیں۔ بیروت پہاڑی ڈھلانوں پر واقع ایک جدید شہر ہے جس میں ہر طرف طویل القامت عمارتیں ایستادہ ہیں۔ عشا کی نماز سمندر کے کنارے ایک مسجد میں پڑھی جس کے بعدتین بنگالی نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو اقوام متحدہ کے کسی مشن میں کام کرنے آئے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے خود ہی انکشاف کیا کہ وہ قادیانی ہے۔ میرے لیے یہ تعجب کی بات تھی۔ کیوں کہ پاکستان میں قادیانی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ان کی مسجدوں میں نمازنہیں پڑھ سکتے۔

لبنان بحیرہ میڈیٹرینین کے ایک کنارے پر واقع ایک پیارا ملک ہے۔ (Photo: kataeb.org)

انعام علی کے ساتھ انعام اللہ کی ملاقات:۔ اُردون سے تعلق رکھنے والی انعام علی سے میں پہلی بار سنگاپور میں ملاتھا۔ پاکستان کے مردانہ اور اور اُردن کی زنانہ انعام کی ملاقات سے وہ بھی خوش تھی اور میں بھی خوش۔ ہم نے جلدی جلدی ایک ساتھ تصویریں اتاریں تاکہ اپنے دوستوں اور لواحقین کو دو مخالف جنسوں کے انعامات کے بارے میں خبر دے سکیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ عالمِ عرب میں انعام ایک زنانہ نام ہے۔ ہوٹل سے روانگی کے وقت ہم دونوں کو ہوٹل کی مین لابی میں گاڑی کا انتظار ذرا بھی ناگوار نہیں ہوا۔ اُس نے اپنے ملک کے بارے میں بتایا کہ اُردن ایک پُرامن ملک ہے۔ حالاں کہ اس کی سرحدیں ایک طرف اسرائیل دوسری طرف عراق و شام اور تیسری طرف لبنان سے ملتی ہیں۔ حکومتی سطح پر اسرائیل کے ساتھ معاہدے موجود ہیں لیکن لوگوں کی اسرائیل کے ساتھ نہیں بنتی۔ ان کے مطابق اُردن کے ستر فیصد شہری دراصل فلسطینی مہاجرین کی اولاد ہیں جن کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد اسرائیلی بربریت کا شکار ہوا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے باوجود آپ کی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کیاہوا ہے جبکہ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے ہر ملک کے لیے کارآمد ہے۔ کہنے لگیں، ’’اسرائیل کو ہماری حکومت نے تسلیم کیا ہے، ہم نے نہیں۔‘‘ اسرائیل کے بارے میں بات کرتے ہوئے اور یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے انعام علی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اسی کانفرنس میں مصر سے تعلق رکھنے والی نوحہ فاتح سے بھی میری ملاقات ہوئی۔ اس محترمہ سے میری پہلی ملاقات سنگاپور پھر استنبول اور اب تیسری بار بیروت میں ہورہی تھی۔ وہ اس بار مصر کی بجائے برطانیہ سے شرکت کررہی تھیں کہ ان دنوں مانچسٹر کی ایک یونیورسٹی میں ایک سال کی سکالرشپ پر پڑھ رہی تھیں۔ نوحہ فاتح کے ساتھ گذشتہ ملاقاتوں میں مصر کے سیاسی حالات پر طویل اور دلچسپ نوک جھونک ہوتی رہتی تھی۔ اسے اخوان المسلمین سے سخت چڑ تھی۔ وہ ان کا نام سننے کی بھی روادار نہ تھی جبکہ میرا کہنا تھا کہ ان سے لاکھ شکایتیں سہی لیکن دوسری طرف مصری فوج ہے جو عالمِ اسلام کی دوسری فوجوں کی طرح امریکہ کی پروردہ ہے۔ اخوان سے غلطیاں ہوئی تھیں لیکن بہرحال وہ جمہوری تھے، ووٹ لے کر پارلیمنٹ آئے تھے جنہیں فوج نے غیر قانونی طریقے سے محض ایک سال بعد ہٹا دیا۔ اس بار ملاقات میں، مَیں نے کہا آپ کا مصر اور جنرل سیسی کیسا ہے؟ اور اخوان کا تو میں پوچھوں گا ہی نہیں کہ وہ آپ کو برے لگتے ہیں۔ اس نے کہا کہ جو لبرل لوگ اخوان کے خلاف سیسی کے ساتھ کھڑے تھے، اب انہیں اس میں حسنی مبارک نظر آرہا ہے۔ اس لیے سخت بیزار ہیں۔ یہی پورے عالم اسلام کا المیہ ہے یعنی جذباتی، موڈی اور عقل سے پیادہ عوام۔
اس کانفرنس میں نوحہ فاتح کی طرح فلسطینی نوجوان علان غازی سے بھی تیسری بار ملاقات ہوئی۔ وہ آئی ٹی سے وابستہ ایک لائق لڑکا ہے۔ غزہ پر رمضان کے دوران میں جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، تو مجھے علان کی بڑی فکر تھی۔ اس سے غزہ کا پوچھا، تو کہنے لگا کہ کل رات سکائپ پر گھر والوں سے بات ہوئی تھی۔ پتا چلا تیسری جماعت میں پڑھنے والا میرا بچہ صبح سات بجے نکلا تھا اور شام سات بجے گھر واپس پہنچا۔ اسرائیلی چیک پوسٹوں کی چیکنگ سے گزرتے ہوئے اکثرو بیشتر ایسا ہوتا ہے۔ اس نے کہا انہیں تین حیثیتوں کی سزا دی جارہی ہے، بطور عرب، بطور فلسطینی اور بطور مسلمان۔ میں نے پوچھا بیت المقدس آپ کے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، نماز پڑھتے ہوئے کیسا لگتا ہے؟ کہنے لگا اسرائیلی قبضے میں رہتے ہوئے مزہ نہیں آتا۔
جمعہ کی نماز بیروت کی سلطان محمد فاتح مسجد میں پڑھی۔ چھوٹی مگر نہایت صاف ستھری تین منزلہ مسجد مجھے بہت اچھی لگی۔ تقریباً سارے نمازی کوٹ پینٹ میں ملبوس تھے۔ میں باقی نمازیوں کے ساتھ نچلی منزل میں تھا کہ اچانک بڑی سکرین پر مسجد کے خطیب صاحب نمودار ہوئے جو شائد دوسری یا تیسری منزل پر منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے۔ وہ بہت صاف ستھری عربی میں بول رہے تھے جس کو میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ کوئی جذباتی یا اختلافی مسئلے پر بات کرنے کی بجائے انسان کے اندر غرور اور گھمنڈ کے جذبات پرقرآنی آیتوں کا حوالہ دے کر بات کررہے تھے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کے خطیب حضرات جمعہ کے اہم اجتماع کے لیے بغیر کسی تیاری کے بول رہے ہوتے ہیں۔

جمعہ کی نماز بیروت کی سلطان محمد فاتح مسجد میں پڑھی۔ (Photo: Keluarga UBC)

نماز جمعہ پڑھ کر بڑا روحانی مزہ آیا۔ میں نمازکے بعدمسجد کے باہر نوجوانوں سے ملنا چاہتا تھا جو انگریزی جانتے تھے اور بات کرنے پر آمادہ بھی تھے لیکن مجھے اجنبی راستوں سے پیدل چل کر ہوٹل پہنچنا تھا، تاکہ بروقت چیک آوٹ کرکے دوحہ جانے والی فلائٹ پکڑ سکوں۔

……………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔