ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے مختلف قسم کے منفی اثرات لوگوں کی شخصیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان میں سے آج کل ہونے والے واقعات کو نظر میں رکھتے ہوئے معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعد میں ان کے قتل کے واقعات سرخیوں یا نیوز چینلوں پر بریکنگ نیوزمیں پیش کیے جاتے ہیں۔ پہلے لوگ بچوں کے جوان ہونے پر ان کا خیال رکھتے تھے، اور اس قسم کے واقعات سے بچانے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اب تو ہر عمر کا، ہر جنس کا بچہ شکار بن جاتا ہے۔ جب ہمارے معاشرے میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے، تو لوگ مذمت کرکے اور ملزم یا مجرم کو برا بھلا کہہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑا تیر مار لیا ہے۔ سیاسی لوگ ایسے واقعات پر جلسے جلوس یا اخباری بیانات دے کر سیاست کرتے ہیں، اور بسااوقات منتخب عوامی نمائندے بچے کے گھر جاکر اہلِ خانہ سے تعزیت کرتے ہیں۔ بعد میں مےڈیا کے سامنے ملزم کو سخت سے سخت سزا دینے کا اعلان کرتے ہیں اور بس۔
گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں بھی بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے افراد کو سرِعام پھانسی دینے کی قرارداد پیش کی گئی۔ جن بچوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں،تو ان کے والدین یا خاندان کے افراد پر جو گزرتا ہے، اس کا اندازہ ان کے علاوہ کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ اس قسم کے واقعات نے دیگر حساس انسانوں کی طرح میری بھی رات کی نیندیں حرام کی تھیں، اور دن رات اس فکر میں رہتا تھا کہ کوئی شخص کس طرح پانچ یا چھے سال کے معصوم بچے کے ساتھ اس طرح کی حرکت کرسکتا ہے، پھراس ننھے منے پھول جیسے بچے کو قتل کرسکتا ہے؟ جس کی وجہ سے مَیں نے اپنے ایک قریبی ’’سائیکاٹریس‘‘ دوست سے ملاقات کی، اور تفصیلی گفتگو کی ۔ اس طرح یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس قسم کے واقعات یا جرائم میں ملوث افراد ایسا کیوں کرتے ہیں؟ مذکورہ نشست میں معلوم ہوا کہ جو لوگ اس طرح کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں، وہ باقاعدہ ایک مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور یہ ایک ذہنی بیماری ہے جس کو ’’پےڈو فیلیا‘‘ ُ(Pedophilia)یا ’’بچہ بازی‘‘ کہا جا تا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ ہم اس کی بنیادی وجہ معلوم کریں، اور انفرادی یا اجتماعی طور پر اس پر مختلف زاویوں سے کام کرکے لوگوں میں آگاہی پھیلائیں، تاکہ اس معاشرتی برائی پر قابو پانے میں مدد حاصل ہو، اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ اس سے نجات حاصل ہو۔
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے پونے چار ہزار واقعات رونما ہوئے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں، جس میں امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔
’’پےڈو فیلیا‘‘ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں ایک بالغ شخص بچوں کی طرف جنسی رغیبت رکھتا ہے، اور ان سے لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بچے جو ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے ہوتے، ان کو ’’پیڈوفائل‘‘ (بچہ باز) جنسی لذت کے لیے اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ بچے مذکورہ فرد کے قریبی رشتہ دار یا پڑوسی ہوتے ہیں جن کی طرف اس کی رسائی آسان ہوتی ہے۔
یہ مرض ’’پیرا فیلیا‘‘ (Paraphila) کی ایک قسم ہے۔ پیرا فیلیا وہ جنسی خلا ہے جس میں کسی بھی انسان کی جنسی لذت اور اشتعال بے قاعدہ اور شدید طریقے سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا شخص کو کم از کم چھے مہینے تک شدید اور بار بار جنسی لذت محسوس ہوتی ہے، اور زیادہ تر اس کے خیالوں میں پانچ سے تیرہ سال کے بچے آتے ہیں۔ ایسے متاثرہ افراد میں بچہ بازی کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے افراد بچے یا بچی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ بچے نہ ملنے کی صورت میں ان کی طبیعت میں بے چینی اور چڑچڑا پن شروع ہو جاتا ہے، اور جس شخص میں ایسی علامات ظاہر ہوں، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس شخص کو ’’پےڈو فیلیا‘‘ بیماری ہے۔ معاشرے میں اس بیماری سے مختلف زاویوں سے نمٹنا ضروری ہے۔ اس میں ضروری ہے کہ اول ہم اپنے بچوں کو ان کی حدود سمجھائیں ۔ ان کو آگاہ کریں کہ اپنے ماں باپ، بہن بھائی، دادا دادی ، نانا نانی کے علاوہ کسی کے قریب نہ پھٹکیں۔
اس حوالے سے ہمارے پاس سوشل مےڈیا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے جس پر خاکوں یا کارٹونز کے ذریعے بچوں میں آگاہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ سکول میں انتظامیہ بھی بچوں کے لیے ایک کلاس میں اس بارے آگاہی دے سکتی ہے۔ سب سے پہلے والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھیں اور ان کو اکیلے باہر جانے نہ دیں۔ ان کو سمجھائیں کہ کسی بھی بالغ شخص کی غیر رسمی حرکت کو والدین کے علم میں ضرور لائیں۔
اگر ہم معاشرتی طور پر سوچیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک بندہ ’’پےڈو فائل‘‘ کیسے بنتا ہے؟ کیا وہ پیدائشی ایسے ہوتا ہے؟ جواب ضرور ’’نہیں!‘‘ ہوگا، بلکہ گرد و نواح میں پائی جانے والی آزادی، خاص کر سوشل مےڈیا کے ذریعے ان کی جنسی شدت، شہوت کو اتنا بڑھاوا ملتا ہے کہ وہ اپنی جنسی لذت کو پورا کرنے کے لیے بچوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی فحاشی و عریانی بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ کم عمر بچے آسانی سے ہاتھ آجاتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کا شکار کم عمر بچے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ یا تو ہر وقت موقع ملتے ہی ان سے اپنی شہوت پورا کرتے ہیں یا پتا چل جانے کے خوف سے انہیں قتل کردیتے ہیں۔ ایسے بچے بڑے ہوکر خود بھی پیڈو فائل ہی بنتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی طرح اپنے بچوں کو سوشل مےڈیا یا فحاشی و عریانی سے دور رکھا جائے۔
مرض ’’پیڈوفیلیا‘‘ کا شکار شخص بظاہر ایک نارمل انسان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس پر شک نہیں کیا جاتا۔ معاشرے میں اس مرض میں مبتلا لوگوں کی پہچان قدرے مشکل ہے، لیکن ان کی پہچان باآسانی ہوسکتی ہے۔اگر کوئی شخص بچوں کے ساتھ کوئی غیر معمولی یا غیر رسمی حرکت کرے، یا کوئی شخص بچوں کو غیر متوقع طرح سے گھور رہا ہو، یا بچے کو کسی بہانے سے اپنے ساتھ اکیلا کرنے کی کوشش کرے، تو اکثر ایسے افراد اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے شخص پر نظر رکھنی چاہیے اور اس کے خاندان والوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے کہ وہ اُس کو ماہرِ نفسیات کے پاس لے جائیں۔
’’پےڈو فیلیا‘‘ مکمل طور پر کنٹرول نہیں ہوسکتا، لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ قابلِ علاج مرض ہے، جس سے ادویہ یا کونسلنگ کے ذریعے نجات مل سکتا ہے۔ اس بیماری کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے، تو اس لیے ضروری ہے کہ آس پاس یا رشتہ داروں میں اگر اس قسم کی حرکات کسی کو نظر آئیں، تو بجائے اس کے کہ اس سے تعلق ختم کیا جائے، اس کا علاج ضروری ہے۔ کیوں کہ ایسا شخص تو آپ کے بچوں سے دور ہو جائے گا، لیکن وہ کسی دوسرے کے بچے کو شکار بنا لے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور اگر ان علامات کا کوئی شخص نظر آجائے، تو فوری طور پر اس کو ماہرِ نفسیات کے پاس لے جائیں، تاکہ بروقت اس کا علاج ہوسکے، اور پھول جیسے بچے اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔