پیر کے روز سے ایک بار پھر معمول کے مطابق آفس شروع ہوا۔ ہم اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ باب ہمیں مختلف امور کے حوالہ سے گائیڈ کرتا گیا۔ روزانہ دوپہر کا کھانا ہم ساتھ کھایا کرتے۔ ایک دن باب ہمیں ایک انڈین ریسٹورنٹ لے گیا۔ انہوں نے ’’ایزا ڈورا‘‘ کو بھی دعوت دی جو اس نے قبول کی۔ انڈین ریسٹورنٹ میں کافی دنوں کے بعد ہم نے اپنے روایتی کھانے کھائے اور ساتھ ہی ایزاڈورا کومختلف کھانوں کے بارے میں سمجھاتے بھی گئے۔ مجھے یہ بات بھی بڑی اچھی لگی کہ بوب کی بیوی مہینے میں ایک بار اپنے پڑوسیوں کو مل بیٹھنے کے لیے دعوت دیتی ہے اور اس طرح پڑوس میں رہنے والی خواتین یا خاندان شام کو ان کے گھر آتے ہیں اوراکٹھے کھانا کھانے کے ساتھ گپ شپ کا دور بھی چلتا ہے۔ بدھ کی شام کو بوب نے آفس ہی میں ہمیں دعوت دی اور ہم نے جھٹ سے قبول کی۔ اس لیے آفس کے بعد جب بوب نے فاطمہ کو کراس فٹ چھوڑ دیا، تو ہم سیدھے بوب کے گھر گئے، جہاں ڈونا، جنیفر اورجیسیکا پہلے ہی سے موجود تھیں۔ گھر کے عقبی لان جہاں خوبصورت جھیل بھی ہے، میں ڈونا نے کرسیاں اور میزیں رکھی تھیں، جس پر خوراک کی چیزیں پڑی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں مختلف گھروں سے خواتین آئیں، جن میں بعض کے ساتھ ان کے کتے بھی تھے۔ جب کہ ایک خاتون جس کا میوزک بینڈ بھی تھا، اس کے ساتھ تین کتے تھے، جن میں ایک اس کی گود میں تھا۔ وہ بہت منھ پھٹ تھی اور اونچی آواز میں بولتی تھی۔ وہ صاف گو تھی، جو اس کے دل میں آتا، سیدھا بولے جاتی۔ڈونا نے سب کے ساتھ میرا تعارف کرایا، تو سب نے مجھ سے پاکستان کے حالات کے بارے میں پوچھا اور میں نے بتا دیا۔ خواتین مختلف موضوعات پر بات چیت کر رہی تھیں، جن میں ملک کے حالات سے لے کر محلے کے بارے میں باتیں شامل تھیں۔ اس طرح محلے اور آس پاس کی خواتین کے ساتھ گپ شپ لگاتے دیکھ کر مجھے اپنا محلہ یاد آیا جہاں اکثر پڑوس کی خواتین ہمارے گھر آتی ہیں اور میری ماں جی یا دوسری خواتین سے گپ شپ لگاتی ہیں۔ یہاں ایک بار پھر میری ایک غلط فہمی دور ہوگئی کہ امریکی سماجی طور پر سب کچھ بھول گئے ہیں، اور یہ کہ وہ پڑوس کے ساتھ تعلق تو کیا ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کو نہیں جانتا۔ امریکہ کے لوگ تو پڑوسیوں کو نہیں بلکہ اکثر پورے محلے کے لوگوں کو جانتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلق بھی رکھتے ہیں۔ تقریباً دو گھنٹے ساتھ گزارنے کے بعدفاطمہ بھی کراس فٹ سے واپس آئی اور ہمیں جوائن کیا۔ کافی دیر کے بعد خواتین اپنے اپنے گھرو ں کو واپس گئیں، جس کے بعد ہم بھی ہوٹل واپس آئے۔
فلوریڈا ٹوڈے میں کام کے دوران میں ہمیں یہاں کے مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اہلکاروں سے بھی ملنا تھا، اور ان سے ان کے کام کے بارے میں آگاہی لینا تھی۔ اس لیے ہماری پہلی ملاقات بریوارڈ کاؤنٹی کے شیرف سے طے تھی۔ 12 جولائی کو ہم صبح نو بجے شیرف وین آئی وے کے آفس گئے، جو ویارا میں قائم تھا۔ شیرف اصل میں پبلک سیفٹی کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور پولیس کا سربراہ ہوتا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ شیرف ضلعی پولیس آفیسر کی طرح ہوتا ہے، مگر یہ باقاعدہ لوگوں کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتا ہے۔

بریوارڈ کاؤنٹی کے شیرف سے ہونے والی ملاقات کے موقعہ پر لی جانے والی تصویر۔

شیرف وین آئی وے کے مطابق انہوں نے امن اور عوام کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جس کی وجہ سے بریوارڈ کاؤنٹی میں جرائم کی شرح بیس فی صد کم ہوئی ہے اور وہ اسے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول، پولیس عوام کی دوست اور خادم ہے۔ اس لیے اس نے عوام کے تحفظ کی خاطر سب سے پہلا قدم آگاہی پروگرام کا آغاز کررکھا ہے، جس میں وہ اور اس کی ٹیم مختلف جگہوں، سکولوں اور دفتروں میں جا کر عوام کو اپنے تحفظ پر پریزنٹیشن دیتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کس طرح خطرات میں پولیس کے پہنچنے سے پہلے حفاظتی تدابیر کرنی چاہئیں۔
یہاں کی پولیس نے سوشل میڈیا پر بھی انتہائی کارآمد آگاہی پروگرام شروع کر رکھا ہے، جس کے دور رَس نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر آگاہی عمل میں مصروف رکھتے ہیں۔ انہوں نے گھریلو تشدد کو کم کرنے کے لیے بھی پروگرام شروع کر رکھے ہیں، جب کہ کم عمری میں ڈرائیونگ کرنے والوں کے لیے سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ جب کہ سیاحوں کی حفاظت کے لیے بھی کافی سرگرم رہتے ہیں اور سیاحوں کے تمام محکموں کے ساتھ روابط میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پولیس اور عوام کی اشتراکی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور ’’کوفی وید پولیس کوپ‘‘ کے نام سے پروگرام کا آغاز کر رکھا ہے، جس میں عوام پولیس کے ساتھ بیٹھ کر کافی پیتے ہیں اور اسی طرح عوام اور پولیس میں روابط بڑھتے ہیں۔ اس طرح بچوں اور پولیس کے مابین دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے انہوں نے ’’ملک اینڈ ڈونٹ وید شیرف‘‘ نامی پروگرام بنایا ہے، جس میں پولیس سکول جاتی ہے اور بچے ان سے مختلف قسم کے سوالات کرتے ہیں۔ یہ تمام پروگرام وہ مختلف کمپنیوں کی معاونت (سپانسر شپ) سے کرتے ہیں۔
شیرف نے کہا کہ وہ سکولوں میں فنڈ ریزنگ بھی کرتے ہیں، جس کے لیے وہ بیس بال میچز کرواتے ہیں۔ یہاں کی پولیس ویڈیو پروگرام بنانے میں بھی تیز ہے۔مختلف سیکٹرز میں ویڈیو ڈاکومنٹریز بھی بنائی ہیں۔ پولیس گانے فلماتی ہے، جس میں یہ ایکٹ بھی کرتی ہے۔
شیرف کی باتیں سن کر مجھے اپنی پولیس یاد آئی اور سوچا کہ ہماری پولیس بھی بریوارڈ کاؤنٹی پولیس کی طرح سرگرمیاں کرسکتی ہے، لوگوں سے مل سکتی ہے، آگاہی مہم چلا سکتی ہے، سکولو ں اور کالجوں میں جا کر قانون کے بارے میں بچوں کو بتاسکتی ہے اور اس طرح معاشرے کے عوام اور پولیس کے درمیان دوستانہ تعلق قائم ہوسکتا ہے۔ شیرف سے ملاقات کے بعد ہمیں ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ سے ملاقات کے لیے جانا تھا۔ ہمار ی دوسری ملاقات اکانمک ڈولپمنٹ کمیشن (Economci Development Commission) کی صدر اور سی ای او ’’لینڈا ایل ویدرمین‘‘ سے تھی جو درمیانی عمر کی خاتون تھی۔ امریکہ میں ’’اکانمک ڈولپمنٹ کمیشن‘‘ اصل میں غیر سرکاری ادارہ ہوتا ہے، جس کا کام متعلقہ کاؤنٹی میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینا، نئے کاروباری اداروں اور کارخانوں کو لانا، سرمایہ لانا اور ملازمتیں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ ادارہ حکومت کی مدد سے ایسے اصلاحات اور مواقع پیدا کرواتا ہے کہ نئے کاروباری ادارے اور کارخانے بخوشی یہاں کا رُخ کرتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس ادارے نے کئی پروگرام شروع کررکھے ہیں، جن میں ’’آن لائن ڈیٹا بیس‘‘، ’’ٹریننگ پروگرام‘‘،ماہر کاریگروں کو راغب کرنے کے پروگرام، ٹیلنٹ کی کھوج کے لیے مہم اور مقامی مصنوعات کو بنانے کے لیے چھوٹے بڑے کارخانے بنانا او رپھر ان مصنوعات کو مارکیٹ تک رسائی دینا شامل ہے۔ فلوریڈا میں بعض لوگ مگر مچھ کا گوشت کھاتے ہیں۔

شکار کیے گئے مگرمچھ کا پیک شدہ گوشت، اسے پکا کر بھی فروخت کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

اس کا باقاعدہ شکار کیا جاتا ہے۔ ہم مذکورہ کمیشن سے سیدھا ایک ایسے ریسٹورنٹ اور سٹور گئے، جہاں مگر مچھ کا گوشت فروخت ہو ر ہا تھا۔ وہاں یہ گوشت نہ صرف فروخت ہورہا تھا بلکہ پکایا بھی جاتا تھا۔ ہم نے سٹور کے مالک سے معلومات حاصل کی اور واپس آگئے۔ (جاری ہے)

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔