احمد راہیؔ، شخصیت و فن

Blogger Rafi Sehrai

احمد راہیؔ پنجابی زبان کا مان تھے۔ پنجابی شاعری کو اُن پر مان تھا۔ تقسیمِ برصغیر سے پہلے نئی پنجابی نظم کے پہلے شاعر شریف کنجاہیؔ تھے جب کہ تقسیم کے بعد نئی پنجابی نظم کے پہلے شاعر احمد راہیؔ تھے۔
احمد راہی 12 نومبر 1923 ء کو امرتسر کے ایک کشمیری خاندان میں خواجہ عبدالعزیز کے ہاں پیدا ہوئے، جو شالیں بیچنے کا کام کیا کرتے تھے۔ والدین نے بیٹے کا نام غلام احمد رکھا، جب کہ مرشد نے اُنھیں خورشید احمد کا نام دیا۔ اُنھوں نے غلام اور خورشید کو ہٹا کر احمد کے ساتھ راہیؔ کا اضافہ کر لیا اور احمد راہیؔ کا قلمی نام اختیار کیا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
پرائمری تک محمدیہ سکول امرتسر میں تعلیم حاصل کی۔ مڈل کا امتحان خزانہ گیٹ امرتسر سے پاس کیا اور پھر میٹرک کے لیے ایم اے اُو کالج امرتسر میں داخلہ لیا۔ معروف شاعرہ امرتا پریتم یہاں اُن کی کلاس فیلو تھیں۔ سیف الدین سیفؔ چھٹی کلاس ہی سے اُن کے دوست اور کلاس فیلو تھے۔
میٹرک کے امتحان میں احمد راہیؔ نے پورے امرتسر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ایف اے میں داخلہ لیا، تو تعلیمی و تدریسی کاموں میں عدم دلچسپی اور سیاست میں بھرپور دلچسپی کی وجہ سے اُنھیں کالج سے ڈراپ آؤٹ ہونا پڑا۔
اُن کے کلاس فیلو سیف الدین سیفؔ بی اے کرگئے جب کہ احمد راہیؔ ایف اے بھی نہ کرسکے۔
احمد راہیؔ کو دلی میں ملازمت مل گئی۔ وہاں اُنھیں ڈاکٹر یاور حیات کے طرحی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا، تو اُن کی شاعری میں نکھار آنا شروع ہوگیا، مگر وہ زیادہ عرصہ دلی میں نہ رہ سکے۔ پاکستان بن چکا تھا۔ وہ ہجرت کرکے یہاں آ گئے۔ یہاں لاہور میں ساحر لدھیانوی ادبی رسالہ ’’سویرا‘‘ کے ایڈیٹر ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے تھے۔ احمد راہیؔ کو ’’سویرا‘‘ کی ادارت مل گئی۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
جون ایلیا، شخصیت و فن  
ابنِ انشاؔ، شخصیت و فن  
حنیف رامے، شخصیت و فن  
انتون چیخوف، شخصیت و فن  
ادا جعفری، شخصیت و فن 
سعادت حسن منٹو جو بلند پایہ افسانہ نگار تھے، احمد راہی کے تایا زاد تھے۔ وہ ’’بیلی‘‘ کے نام سے فلم بنا رہے تھے۔ احمد راہیؔ نے اُن کی فرمائش پر اس فلم کے چار نغمے لکھے۔ فلم تو تکنیکی وجوہات کی بنا پر کامیاب نہ ہوسکی، مگر احمد راہیؔ کے گیت پسند کیے گئے۔
ابتدا میں احمد راہیؔ، سیف الدین سیفؔ سے شاعری کی اصلاح لیتے رہے۔ لاہور میں اُنھوں نے فیض احمد فیضؔ کی شاگردی اختیار کرلی۔ احمد راہی نے تقسیم کے وقت فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مسلمانوں پر سکھوں کے مظالم کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ اُس کرب، درد، تکلیف اور مظالم کے ردِ عمل کے طور پر اُنھوں نے اپنی شاعری کی کتاب ’’ترنجن‘‘ لکھی جو 1952ء میں شائع ہوئی۔
’’ترنجن‘‘ دراصل احمد راہیؔ کا پنجابی ادب میں بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اُس وقت تک پنجابی کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ نازک احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے یہ زباں موزوں نہیں، لیکن احمد راہیؔ ’’ترنجن‘‘ کے ذریعے اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب رہے۔
احمد راہیؔ معروف ہستیوں یعنی فیض احمد فیضؔ، سیف الدین سیفؔ اور سعادت حسن منٹو سے خصوصی قرابت کی بنا پر ترقی پسند تحریک کا حصہ بھی تھے۔ ترقی پسند شاعری پر معترضین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ترقی پسند شعرا شاعری سے حسن و جمال چھین لیتے ہیں، لیکن اس کے برعکس فیض احمد فیضؔ اور ان کے شاگرد احمد راہیؔ نے اپنی شاعری میں حسن و جمال ہی کو اجاگر کیا۔
’’ترنجن‘‘ میں شامل تمام نظمیں اور گیت عورت کی زبانی کہلوائے گئے ہیں۔
’’ترنجن‘‘ دراصل اس آنگن کو کہا جاتا ہے، جہاں نوجوان الہڑ دوشیزائیں دائرے میں بیٹھ کر چرخہ کاتا کرتی تھیں۔ وہ گیت گاتیں، کہانیاں سناتیں اور رازو نیاز کی باتیں کرتی ہیں۔ چوں کہ ترنجن کا تعلق خالص لڑکیوں یا عورتوں سے ہوتا ہے، اس لیے احمد راہیؔ نے مرد کی زبانی کہی گئی نظمیں اپنی کتاب (ترنجن) سے نکال دیں۔ کیوں کہ مرد ترنجن اُجاڑتا ہے۔
’’ترنجن‘‘ کی شاعری میں عورتوں کے دکھوں کا اظہار ہے، لوک گیتوں کی مٹھاس ہے اور پیار کی چاشنی ہے۔ یہ آج بھی پنجابی شاعری کی بڑی اہم کتاب ہے اور پاکستان کے درسی پنجابی نصاب کا حصہ بھی ہے۔ اس کی شاعری اپنے عہد کی ترجمان ہے۔ 1947ء کی ہجرت کے پس منظر میں احمد راہیؔ کہتے ہیں:
سن وے بابل میریا
تیرے ٹُٹ گئے سارے مان
تیری پگ پَیراں وچ رُل گئی
مِٹّی وچ مِل گئی شان
تیری شرماں والی دھی نوں
اج ویکھ کے سب شرمان
ترجمہ:۔ اے میرے باپ! تیرا سارا فخر خاک میں مل گیا ہے۔ تیری شرموں والی بیٹی کی عزت و عصمت پامال کر دی گئی ہے۔
’’ترنجن‘‘ کی نظموں میں تقسیمِ ہند کے وقت ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو بڑے شاعرانہ طریقے سے جگہ جگہ پیش کیا گیا ہے، مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ملاحظہ ہو:
ناں کوئی سہریاں والا آیا
تے نہ ویراں ڈولی ٹوری
جس دے ہتھ جِدی بانہہ آئی
لے گیا زور و زوری
ترجمہ:۔ نہ کوئی سہرے والا آیا نہ بھائیوں نے ڈولی اُٹھائی۔ جس کے ہاتھ جو لگی وہ زبردستی لے گیا۔
’’ترنجن‘‘ کا دیباچہ احمد ندیم قاسمی نے ’’اک دو گلّاں‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ اس مجموعے کا فلیپ سعادت حسن منٹو نے احمد راہیؔ کی فرمایش پر پنجابی میں لکھا…… اور یہی سعادت منٹو کی اکلوتی پنجابی تحریر بھی ثابت ہوئی۔ اُن کے علاوہ کرشن چندر نے بھی ’’ترنجن‘‘ کا فلیپ لکھ کر راہیؔ کے فن کو داد دی۔
احمد راہیؔ 1954ء میں باقاعدہ فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے۔ پہلی فلاپ فلم کے بعد احمد راہیؔ نے دو فلموں ’’مجرم‘‘ اور ’’پرواز‘‘ کے گیت لکھے، مگر یہ فلمیں بھی ناکام رہیں۔
احمد راہیؔ کو فلمی دنیا میں کامیابی 1956ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ماہی منڈا‘‘ سے ملی۔ عنایت حسین بھٹی کی آواز میں اس فلم کے گیت:
’’رنّاں والیاں دے پکن پرونٹھے تے چھڑیاں دی اگ نہ بلے،
ہائے ربّا جی ساڈی اگ نہ بلے‘‘
نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ فلم ’’یکے والی‘‘ اور ’’چھو منتر‘‘ کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ دونوں فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں اوراحمد راہیؔ مستند فلمی نغمہ نگار بن گئے۔
1968ء میں بننے والی فلم ’’مرزا جٹ‘‘ کی کہانی چیلنج سمجھ کر اُنھوں نے لکھی۔ کیوں کہ اِس موضوع پر بننے والی ایک فلم پہلے فلاپ ہوچکی تھی۔ ’’مرزا جٹ‘‘ بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ فلم کے مکالموں کے ساتھ ساتھ گیت بھی احمد راہیؔ نے لکھے، جنھیں انتہائی مقبولیت ملی۔ ذرا یہ گیت ملاحظہ ہو:
مٹیارو نی میرے ہان دیو
تسی حال میرے نوں جان دیو
حال میرے توں ڈرنا نی
اڑیو پیار نہ کرنا نی
ترجمہ:۔ اے میری ہم عمر لڑکیو! تم میرے حال سے واقف ہو۔ میرے حال سے ڈرو! سہیلیو پیار نہ کرنا!
پنجابی فلموں کے ماتھے کا جھومر ’’ہیر رانجھا‘‘ کے مکالمے اور گیت بھی احمد راہیؔ نے لکھے۔ اس فلم میں 12 گیت ہیں، اور سب کے سب سپر ہٹ ہوئے۔
اپنے 40 سالہ فلمی کیریئر میں احمد راہیؔ نے 260 فلموں کے سکرپٹ اور 1900 سے زائد فلمی گیت لکھے۔ اُن کا معروف انگ تو پنجابی ہی رہا، مگر اُردو میں بھی جو لکھا کمال لکھا۔ ذرا فلم باجی کا یہ گیت تو دیکھیں:
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
دلِ تنہا غمِ تنہائی میں ڈھل جائے گا
مذکورہ فلم کا یہ گیت بھی بڑا مشہور ہوا:
چندا توری چاندنی میں دیا جلا جائے رے
بِرہا کی بَیری رتیاں بیتے ناہی ہائے رے
احمد راہیؔ کو اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) سے بھی نوازا گیا۔
معروف شاعرہ امرتا پریتم اور لیجنڈ گلوکارہ نورجہاں اُنھیں ’’پنجاب دا لاڑا‘‘ کہا کرتی تھیں۔ احمد راہیؔ خود امرتا پریتم کی شاعری کے بڑے مداح تھے۔
احمد راہیؔ نے جن فلموں کے سکرپٹ لکھے، اُن میں ’’مرزا جٹ‘‘، ’’ہیر رانجھا‘‘، ’’سسی پنوں‘‘، ’’ناجو‘‘، ’’گڈو‘‘، ’’اچا شملہ جٹ دا‘‘، ’’شہری بابو‘‘، ’’ماہی منڈا‘‘، ’’یکے والی‘‘، ’’چھو منتر‘‘، ’’مٹی دیاں مورتاں‘‘، ’’باجی‘‘ اور ’’بازارِ حسن‘‘ شامل ہیں۔
پنجاب دا لاڑا، احمد راہیؔ 2 ستمبر 2002ء کو 79 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ وہ خود تو چلا گیا، مگر ’’ترنجن‘‘ اور اپنے لازوال فلمی گیتوں کی صورت میں ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے خود کو اَمر کرگیا۔ وہ خود تو ہم سے بچھڑ کے چپ ہوگیا، مگر اس کے الفاظ خاموش نہیں ہوئے، وہ آج بھی بولتے ہیں۔
اب ذیل میں احمد راہیؔ کے کچھ یادگار فلمی نغمات کی فہرست ملاحظہ ہو:
میری چُنی دیاں ریشمی تنداں
چندا توری چاندنی میں دیا جلا جائے رے
اینی گل دس دیو نِکے نکے تاریو
چن ماہی آ تیری راہ پئی تکنی آں
مٹیارو نی میرے ہان دیو
سُنجے دل والے بوہے اجے میں نہیں ڈھوئے
ماہی وے مینوں لال چڑھا دے چوڑا
بابل تیری میری چھو
تیرے نال میں لائیاں اکھیاں
گورے رنگ تے دوپٹیاں دی چھاں کر کے
مَیں جدوں دا تن من لا دتا اے تیرے لیکھے وے
ونجھلی والڑیا
کدی آ مل رانجھن وے
برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا
کوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا
رُکھ ڈولدے تے اکھ نہیوں لگدی
جھوٹھیے جہانن دیے کچیئے زبان دیے
اکھیاں وے راتیں سَون نہ دیندیاں
زلفاں دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں ڈھولنا
نِکے ہوندیاں دا پیار ویکھیں دیویں نہ وسار
جدوں تیری دنیا چوں پیار ٹر جاوے دا
ڈھول بلوچا موڑ مہاراں
اک مر جانی دا دوپٹّا کسے دے سیّو پَیریں رُلیا
اِک روویں توں بدلا دوجے روندے نَین نمانے
جان والیا تینوں میں سنا نہ سکی دل والی گل وے
آندا تیرے لئی ریشمی رومال
وگدے نیں اکھیاں چوں راوی تے جھناں وے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے