تحریر: احمد نعیم
ادب کا نوبل پرائز ناروے کے 64 سالہ ’’جان فوسے‘‘ (Jon Fosse) لے اُڑے۔
ظاہر ہے ہم اُن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، جیسے اُن سے پہلے والے ’’نوبل پرائز وِنرز‘‘ سے متعلق اکثر نہیں جانتے۔ بہت سارے تنازعات کے باوجود نوبل پرائز کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ ادب کے ایک شائق قاری کے بطور میں ایسے ادیبوں سے متعلق جاننے میں دلچسپی ضرور رکھتا ہوں، جنھیں اس ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا ہو۔ سو، تھوڑی سے گوگل سرچ سے جو معلومات مل سکی، وہ آپ احباب سے شیئر کرتا ہوں۔
’’جان فوسے‘‘ کا وکی پیڈیا پروفائل بتاتا ہے کہ یہ 29 ستمبر 1959ء کو ناروے میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے ناروے کی "University of Bergen” سے تقابلی ادب میں گریجویشن کیا اور بعدازاں تخلیقی ادب کو اپنا کیریئر منتخب کیا۔ ان کا پہلا ناول "Raudt, Svart” (سرخ، سیاہ) 1983ء میں شائع ہوا۔ اب تک یہ 20 سے زاید ناول اور لگ بھگ اتنے ہی ڈرامے لکھ چکے ہیں۔ اُنھیں ناول نگار سے زیادہ ڈراما نگار کے طور پر جانا جاتا ہے، اور نوبل پرائز بھی اُنھیں اُن کی ڈراما نویسی پر ہی دیا گیا ہے۔ اُنھیں ناورے کا جدید "Henrik Ibsen” کہا جاتا ہے، جس نے نارویجن لینگوئج میں جدید تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ تھیٹر کے حوالے سے اُسے رئیل ازم کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ خود بھی ڈراما رائٹنگ کے حوالے سے ’’ہینرک ابسین‘‘ اور ’’سیموئل بیکٹ‘‘ سے متاثر ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔
نوبل پرائز کمیٹی نے اُن کی تحریروں اور ڈراموں کو ’’محکوموں اور بے کسوں کی آواز‘‘ قرار دیا ہے۔ جب کہ فوسے اپنی تحریر میں ’’اُلوہی مقاصد‘‘ کا دعوے دار ہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ 2012ء سے پہلے اُنھوں نے خود کو ایک ملحد ڈکلیئر کیا ہوا تھا، لیکن 2013ء میں اُنھوں نے باقاعدہ کیتھولک چرچ کو جوائن کر لیا۔ 2022ء میں اُنھوب نے لاس اینجلس ریویو آف بکس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: ’’مَیں جب کچھ بہتر لکھنے لگتا ہوں، تو ایک دوسری خاموشی کی زبان کو محسوس کرتا ہوں۔ خاموشی کی یہ زبان سب کچھ کَہ دیتی ہے۔ یہ کہانی کے متعلق نہیں ہوتا، لیکن کہانی کے پیچھے آپ اسے سن سکتے ہیں، ایک خاموشی جو مسلسل سرگوشی کرتی رہتی ہے۔‘‘
پہلا ادبی انعام اُنھیں اپنے ہی ملک میں 1997ء میں ملا، لیکن عالمی سطح پر اُن کی پذیرائی 2003ء میں ہوئی، جب اُنھیں فرانس کے اعلا ادبی انعام سے نوازا گیا۔ 2011ء میں اُنھیں اوسلو میں ناوریجن ریاست کے رائل پیلس "Grotten” کے قریب سرکاری رہایش عطا کی گئی۔ گذشتہ برس شائع ہونے والے اس کے ناول "A New Name: Septology VI-VII” کو اُن کا اَب تک کا اہم ترین شاہ کار سمجھا جاتا ہے، جو 2022ء کے بُکر پرائز میں بھی شارٹ لسٹ ہوا۔ اس کے علاوہ اُن کے ناول، ڈرامے ، مضامین اور شاعری پر مبنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ یورپین زبانوں کے علاوہ وہ فارسی میں بھی ترجمہ ہوچکے ہیں اور اُن کے ڈرامے تہران میں دکھائے جا چکے ہیں۔
’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ کی جانب سے جاری کردہ عالمی ادبیات کی ایک سو حیات نابغہ روزگار شخصیات (Top 100 Living Geniuses) میں اُنھیں 83 نمبر پہ رکھا گیا ہے۔
’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے مطابق اس سے پہلے ناورے کے تین ادیب ’’ادب کا نوبل انعام‘‘ حاصل کرچکے ہیں، لیکن یہ انعام 95 سال بعد ملک کے حصے میں آیا ہے۔ آخری ناوریجن ادیب "Sigrid Undset” تھے، جنھوں نے تاریخی فکشن لکھنے پر یہ انعام 1928ء میں حاصل کیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔